نیکوبار میں ماحولیاتی تباہی کی تیاری... سونیا گاندھی

ہمارا اجتماعی ضمیر اس وقت خاموش نہیں رہ سکتا اور نہ رہنا چاہیے جب شومپن اور نیکوباری قبائل کی بقا خطرے میں ہو۔

<div class="paragraphs"><p>سونیا گاندھی، ویڈیو گریب</p></div>
i
user

سونیا گاندھی

گزشتہ 11 برسوں میں نیم پختہ اور ناقص سوچ پر مبنی پالیسی سازی خوب دیکھنے کو ملی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال’گریٹ نیکوبار‘ میگا انفراسٹرکچر پروجیکٹ ہے۔ غلط جگہ لگایا جانے والا 72 ہزار کروڑ روپے کا یہ منصوبہ اس جزیرے کی مقامی قبائلی برادریوں کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہ دنیا کے انوکھے نباتاتی و حیواناتی نظام کو تباہ کرنے والا ہے اور قدرتی آفات کے لحاظ سے نہایت کمزور ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود حکومت بے حسی کے ساتھ اس منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے، اور یوں تمام قانونی و مشاورتی عمل کا مذاق اڑا رہی ہے۔

قبائل کی بے دخلی

’گریٹ نیکوبار‘ جزیرہ 2 مقامی برادریوں کا مسکن ہے– نیکوباری قبیلہ اور شومپن قبیلہ (جو ’خصوصی طور پر کمزور قبائلی گروہ‘ میں شامل ہے)۔ نیکوباری قبیلہ کے آبائی گاؤں اسی زمین پر آتے ہیں جہاں منصوبہ بنایا گیا ہے۔ 2004 والے بحرِ ہند کے سنامی کے دوران نیکوباری باشندوں کو اپنا گاؤں خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اب یہ منصوبہ اس برادری کو ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دے گا اور ان کے آبائی علاقوں میں واپسی کے خواب کو بھی ختم کر دے گا۔


شومپن قبیلہ اس سے بھی بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ جزیرے کی شومپن پالیسی، جسے مرکزی وزارت برائے قبائلی امور نے نوٹیفائی کیا تھا، حکام کو پابند کرتی ہے کہ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر غور کرتے وقت قبیلے کی فلاح و بقا کو ترجیح دی جائے۔ لیکن اس منصوبے کے تحت شومپن ٹرائبل ریزرو کے بڑے حصے کو ڈینوٹیفائی کر دیا گیا ہے، ان کے جنگلاتی ماحولیاتی نظام کو تباہ کیا جا رہا ہے اور جزیرے پر بڑی تعداد میں لوگوں اور سیاحوں کا داخلہ ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ شومپن اپنی آبائی زمین سے کٹ جائیں گے اور اپنی معاشرتی و معاشی زندگی برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس کے باوجود حکومت ہٹ دھرمی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

قبائلی حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی و قانونی اداروں کو اس پورے عمل میں نظرانداز کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 338-اے کے تحت حکومت کو قومی کمیشن برائے درج فہرست قبائل سے مشورہ کرنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ حکومت کو گریٹ نیکوبار اور لٹل نیکوبار جزائر کی قبائلی کونسل سے بھی مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ اس کے برعکس، کونسل کے چیئرمین کی اپیل کہ نیکوباری قبائل کو اپنے آبائی گاؤں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے، مکمل طور پر نظرانداز کی گئی۔ کونسل سے ’عدمِ اعتراض‘ کا ایک خط لیا گیا، لیکن بعد میں کونسل نے اسے واپس لے لیا اور کہا کہ حکام نے انہیں دستخط کرنے کے لیے جلدی میں مجبور کیا تھا۔


مقامی برادریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین و طریقہ کار کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ ’حق برائے منصفانہ معاوضہ اور شفافیت در زمین حصول، بازآبادکاری اور بحالی ایکٹ 2013‘ کے تحت کیے گئے سماجی اثرات کے جائزے میں نیکوباری اور شومپن کو اس عمل کے فریق سمجھ کر منصوبے کے اثرات کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ لیکن رپورٹ میں ان کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اسی طرح ’فاریسٹ رائٹس ایکٹ 2006‘، جو شومپن کو جنگلات کے تحفظ، دیکھ بھال اور انتظام کی طاقت دیتا ہے، کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ قبائلی کونسل نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شومپن سے اس مسئلے پر کوئی مشورہ نہیں لیا گیا۔ اس طرح ملک کے قوانین کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور ناقابلِ معافی طور پر ملک کے سب سے کمزور گروپوں میں سے ایک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔

زرعی شجرکاری کا ڈھونگ

ماحولیاتی اعتبار سے یہ منصوبہ کسی سانحے سے کم نہیں۔ اس کے تحت جزیرے کے تقریباً 15 فیصد رقبے پر درختوں کو کاٹنا پڑے گا، جس سے قومی و عالمی منفرد بارش والا جنگلاتی نظام تباہ ہو جائے گا۔ وزارت ماحولیات کے اندازے کے مطابق 8.5 لاکھ درخت کٹیں گے۔ یہ اعداد و شمار پہلے ہی تشویشناک ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد 32 لاکھ سے 58 لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے۔


حکومت نے اس اندھا دھند کٹائی کا حل ’زرعی شجرکاری‘ (compensatory afforestation) بتایا ہے، جو پرانے اور قدرتی جنگلات کے نقصان کا ناقص نعم البدل ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ شجرکاری ہریانہ میں کی جائے گی، جو ہزاروں کلومیٹر دور ایک بالکل مختلف ماحولیاتی نظام رکھتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس شجرکاری کے لیے رکھی گئی زمین کا ایک چوتھائی حصہ ہریانہ حکومت نے کانکنی کے لیے نیلام کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زرعی شجرکاری صرف ضمیر کو تسلی دینے کا ذریعہ ہے، لیکن یہ حیاتیاتی تنوع سے بھرپور قدرتی جنگلات کے نقصان کا کبھی بدل نہیں ہو سکتی۔

مقررہ بندرگاہ کی جگہ بھی متنازعہ ہے، کیونکہ اس کا کچھ حصہ ساحلی ضابطہ زون (سی آر زیڈ) 1-اے میں آتا ہے، جہاں بندرگاہ کی تعمیر ممنوع ہے۔ اس کی وجہ وہاں موجود کچھوؤں کے انڈے دینے کی جگہیں اور مرجان کی چٹانیں ہیں۔


واضح شواہد موجود ہونے کے باوجود، جن میں نیشنل گرین ٹریبونل کا حکم بھی شامل ہے، حکومت نے ایک ہائی پاور کمیٹی بنا کر اس حقیقت کو بدلنے کی کوشش کی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ اور اس کے ’گراؤنڈ ٹروتھنگ‘ کا عمل عوامی سطح پر ظاہر نہیں کیا گیا۔

طریقۂ کار میں خامیاں

جنگلی حیات کے حوالے سے بھی یہ منصوبہ شدید خدشات پیدا کرتا ہے۔ ماہرین حیوانات نے حکومت کو لکھ کر خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ ’نیکوبار لانگ ٹیلڈ مکاک‘ (بندر) پر سنگین اثر ڈالے گا، لیکن ان خدشات کو نظرانداز کر دیا گیا۔ حیاتیاتی تنوع کے جائزے بھی ناقص طریقۂ کار کے باعث سوالات کی زد میں ہیں۔ کچھوؤں کے انڈے دینے کی جگہوں کا جائزہ اس موسم میں کیا گیا جب انڈے دینے کا وقت ہی نہیں تھا۔ ڈوگونگ (ایک سمندری جانور) کے مطالعے کے لیے ڈرون استعمال کیے گئے، جن کی صلاحیت محدود ہے اور یہ صرف اتھلے پانیوں تک محدود رہتے ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ تحقیقی اداروں کو غیر معمولی حالات میں، دباؤ کے تحت یہ مطالعات کرنے پر مجبور کیا گیا۔


آخرکار، یہ پورا منصوبہ (بندرگاہ سمیت) ایک زلزلہ خیز علاقے میں تعمیر ہو رہا ہے۔ دسمبر 2004 کے سنامی نے تقریباً 15 فٹ زمین کو مستقل طور پر دھنسایا تھا۔ جولائی 2025 میں انڈمان و نیکوبار میں آنے والا 6.2 شدت کا زلزلہ ہمیں اس مسلسل خطرے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ایسے علاقے میں اس بڑے منصوبے کو قائم کرنا سرمایہ، انفراسٹرکچر، انسانوں اور ماحولیات سب کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

ہمارا اجتماعی ضمیر اس وقت خاموش نہیں رہ سکتا اور نہ رہنا چاہیے جب شومپن اور نیکوباری قبائل کی بقا خطرے میں ہو۔ ہماری آنے والی نسلوں سے وابستگی ہمیں اجازت نہیں دیتی کہ ہم اس منفرد ماحولیاتی نظام کی بڑے پیمانے پر تباہی پر آنکھ بند کر لیں۔ ہمیں اس ناانصافی اور قومی اقدار سے غداری کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔

(مضمون نگار ’کانگریس پارلیمانی پارٹی‘ کی چیئرپرسن ہیں، اور ان کا یہ مضمون روزنامہ ’دی ہندو‘ میں شائع انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔