غربت کم ہوئی مگر کروڑوں کے مستقبل پر اب بھی بے یقینی کی دھند...ڈاکٹر اجیت راناڈے
گزشتہ دہائی میں ہندوستان میں شدید غربت میں نمایاں کمی آئی لیکن غیر یقینی روزگار، کمزور سماجی تحفظ اور بڑھتی عدم مساوات اب بھی اہم چیلنج ہیں

غربت کم ہوئی مگر کروڑوں کے مستقبل پر اب بھی بے یقینی کی دھند / تصویر اے آئی
حال ہی میں ورلڈ بینک کے جاری کردہ تخمینے کے مطابق، ہندوستان میں شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد 2011-12 میں 34.4 کروڑ سے کم ہو کر 2022-23 میں 7.5 کروڑ رہ گئی ہے۔ یہ ایک قابل ستائش کامیابی ہے کیونکہ تقریباً 26.9 کروڑ افراد غربت کی اس انتہائی سطح سے باہر آ چکے ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق شدید غربت کی تکنیکی تعریف ہر روز 3 امریکی ڈالر سے کم آمدنی ہے، جو کہ خوراک، صاف پانی، رہائش اور بنیادی صحت جیسی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ اس حد سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو اکثر غذائی قلت، ناقص صفائی اور بنیادی تعلیم و صحت کی سہولیات کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ حالات جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں۔
اس وقت ہندوستان میں شدید غربت کی شرح تقریباً 5.3 فیصد ہے۔ اگرچہ 2011 کے بعد کوئی باقاعدہ مردم شماری نہیں ہوئی ہے، تاہم مجموعی آبادی کے اندازوں کی بنیاد پر مانا جا سکتا ہے کہ دنیا میں شدید غربت میں زندگی گزارنے والے 83.8 کروڑ افراد میں سے 7.5 کروڑ ہندوستان میں ہیں، جو کہ دنیا کے مجموعی حصے کا 9 فیصد ہے۔
یہ بات اطمینان بخش ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستان کی کارکردگی اوسط سے بہتر ہے، مگر تعداد کے لحاظ سے ہندوستان نائجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس تناظر میں چین کی مثال بھی قابل ذکر ہے، جہاں حکومت نے 2020 میں شدید غربت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور وہاں یہ شرح اب صفر کے قریب ہے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے مطابق 2030 تک شدید غربت کو مکمل طور پر ختم کرنا اولین ہدف ہے، یعنی اب محض پانچ سال باقی ہیں۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ شدید غربت کی بین الاقوامی لکیر 2017-18 کے 2.15 ڈالر فی دن سے بڑھا کر اب 3 ڈالر کر دی گئی ہے، تاکہ اس کا پیمانہ غریب ممالک کے اوسط معیار کے مطابق ہو سکے۔ اس نئی حد کے مطابق ہندوستان میں 2023 تک تقریباً 3.37 کروڑ افراد اس دائرے میں تھے۔
غربت کے ایک اور پیمانے ’کثیر جہتی غربت انڈیکس‘ (ایم پی آئی) کے مطابق، جو صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی پر مشتمل دس اشاریوں پر مبنی ہوتا ہے، ہندوستان میں قابل ذکر بہتری دیکھی گئی ہے۔ نیتی آیوگ، جو اپنے حساب میں 12 اشاریوں کا استعمال کرتا ہے (مثلاً زچگی کی صحت اور بینک اکاؤنٹ تک رسائی)، کے مطابق ایم پی آئی غربت کی شرح 2013-14 میں 29 فیصد سے کم ہو کر 2022-23 میں 11.3 فیصد رہ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 24.8 کروڑ افراد ایم پی آئی کی غربت سے باہر نکلے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے اشتراک سے تیار کردہ ایم پی آئی کے مطابق 2019-21 کے درمیان ہندوستان کی غربت کی شرح 15 فیصد تھی، جو نیتی آیوگ کے اندازے سے قدرے زیادہ ہے۔ یہ فرق اس لیے ہے کیونکہ دونوں ادارے الگ الگ پیمانے استعمال کرتے ہیں۔ نیتی آیوگ کے انڈیکس میں بجلی اور بینک کھاتے جیسے اشاریے شامل ہیں، جو اب عام طور پر ہر کسی کو دستیاب ہیں، جبکہ یو این ڈی پی غذائی قلت اور بچوں کی اموات جیسے اشاریوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ غربت کی لکیر سے اوپر جانا کسی مستقل بہتری کی ضمانت نہیں ہے۔ اگر روزگار غیر یقینی ہو یا گھر میں کوئی بیماری یا موت واقع ہو جائے، تو کوئی بھی خاندان دوبارہ غربت میں جا سکتا ہے۔ اس لیے سماجی تحفظ کا ایک مضبوط اور جامع نظام بہت ضروری ہے۔
چونکہ حکومت کے مالی وسائل محدود ہیں اور قرض کی ایک حد ہے، اس لیے اخراجات کے شعبوں میں توازن قائم کرتے ہوئے سماجی تحفظ کو وسعت دینا ہوگی۔ یہ عمل پاپولزم سے مختلف ہے کیونکہ اس کا مقصد صرف مستقل مدد فراہم کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو دوبارہ غربت میں گرنے سے روکنا ہے۔ تاہم، طویل المدتی حل بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرنا ہے۔ اس کے لیے چھوٹے کاروباروں کا فروغ، ہنر مندی میں اضافہ اور ٹیکنالوجی کے تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت ضروری ہے۔
مضنوعی ذہانت، روبوٹکس اور آٹومیشن جیسے جدید رجحانات روزگار کے روایتی مواقع کے لیے چیلنج بنتے جا رہے ہیں، اس لیے ان سے نمٹنے کی تیاری بھی ضروری ہے۔ بالآخر ہمیں محض شدید غربت ہی نہیں بلکہ مجموعی غربت اور آمدنی میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات پر بھی توجہ دینی ہوگی، تاکہ ترقی کے ثمرات چند افراد تک محدود نہ رہ جائیں۔
(مضمون نگار ڈاکٹر اجیت راناڈے، معروف ماہر معاشیات ہیں، بشکریہ دی بلین پریس)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔