نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!...عبید اللہ ناصر
مضمون میں آر ایس ایس کے نظریات اور ان کے اثرات پر بات کی گئی ہے، جو ہندوستان کی جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ انتہاپسندی کے بڑھتے اثرات پر تشویش ظاہر کی گئی ہے

Getty Images
ہندوستان میں آج جو سیاسی اور سماجی ماحول نظر آ رہا ہے وہ دراصل آر ایس ایس کی سو سالہ محنت اور دیرینہ خواب کا نتیجہ ہے۔ آر ایس ایس کے نظریات اور اس کی پالیسیوں کا اثر ہندوستان کی جمہوریت اور سماجی تانے بانے پر گہرا پڑا ہے۔ آر ایس ایس ایک ایسا ہندوستان چاہتا ہے جو صرف ہندوؤں کا ہو اور اس نظریے کے پیچھے گرو گولوالکر کی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘ ہے، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے دوسرے درجے کے شہری ہونے کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ہے۔
آر ایس ایس کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر منجے ہٹلر سے متاثر ہو کر جرمنی گئے تھے۔ وہاں کی نازی پارٹی کے طریقہ کار سے متاثر ہو کر انہوں نے ہندوتوا کی بنیاد رکھی۔ جرمنی میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد انہوں نے ہٹلر کی نسلی برتری اور یہودیوں کے خلاف پالیسیوں کا بغض سے مطالعہ کیا اور ان کے طریقہ کار کو اپنانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد انہوں نے مسولینی سے ملاقات کرنے کے لیے اٹلی کا سفر کیا اور وہاں کی فاشسٹ پارٹی کے طریقوں کو سمجھا۔ یہ سب تجربات آر ایس ایس کے نظریات کی بنیاد بنے اور اس کی تنظیم میں موجود رہے۔
آر ایس ایس نے کبھی بھی ہندوستان کے آئین کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اس کی نظریاتی کتاب "بنچ آف تھاٹس" میں گرو گولوالکر نے واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانا ضروری ہے۔ اس نظریے کا مقصد ہندوتوا کو فروغ دینا ہے، جو ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھ رہا ہے جہاں تمام اقلیتوں کو حقیر سمجھا جائے۔ یہ نظریہ جمہوریت کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ جمہوریت میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق ملتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔
2014 میں جب بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا تو آر ایس ایس نے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ آئین میں تو کوئی تبدیلی نہیں کی گئی مگر اس کی روح کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا گیا، اور ان کے حقوق سلب کرنے کے لئے مختلف اقدامات کیے گئے۔ مسلمانوں کی ماب لنچنگ، ان کے کاروبار اور املاک کو نشانہ بنانا اور ان کی مذہبی آزادیوں کو محدود کرنا عام ہو گیا۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے 2014 کے بعد کئی بار ایسی باتیں کیں جو ان کے اپنے نظریات سے متصادم تھیں۔ وہ کھلے عام یہ کہتے نظر آئے کہ ہندوتوا کے لیے مسلمانوں کی موجودگی ضروری ہے اور مسلمانوں کے بغیر ہندوتوا مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کہا کہ ہندوستانی معاشرتی تانے بانے کا حصہ ہر فرد ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ان بیانات نے نہ صرف آر ایس ایس کی صفوں میں انتشار پیدا کیا، بلکہ اس کے حامیوں کے درمیان بھی اختلافات کو جنم دیا۔
دراصل، مودی ہوں یا یوگی یا امت شاہ یہ کٹر وادی ہندوؤں کے ہیرو ہو گئے ہیں حالت یہ ہے کہ مودی کی تصویر بھگوان رام سے بڑی بنا دی گئی اور ہندوؤں کے اس طبقہ نے اسے قبول کر لیا ہر ہر مہادیو کے دیومالائی نعرہ کی جگہ ہر ہر مودی ہو گیا اور ان ہندوؤں نے اسے بھی قبول کر لیا -رام مندر کے افتتاح کے موقع پر شنکراچاریہ نے مودی کی مخالفت میں کچھ کہہ دیا تو اتنی بڑی مذہبی شخصیت کو بھی ٹرول کرنا شروع کر دیا گیا دڑ تو یہ ہے کہ کہیں بھگوان رام مودی یوگی کی مخالفت میں کچھ بول دیں تو یہ عناصر شائد انہیں بھی نہ بخشیں
ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان کے حقوق کی پامالی اور ان کے مذہبی مقامات پر حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسلم خواتین کی اجتماعی عصمت دری، مسلمان نوجوانوں کا قتل، اور ان کے مذہبی اداروں پر حملے ان تمام مظالم کا حصہ بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف فضا کو زیادہ سے زیادہ زہر آلود کیا جا رہا ہے، اور اس کے پیچھے آر ایس ایس کے نظریات کی ہی سرپرستی نظر آتی ہے۔ ہندوتوا کے حامی مسلمانوں کو غیر ملکی سمجھتے ہیں اور ان کی موجودگی کو خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
آر ایس ایس کا نظریہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس پر تنقید کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں آر ایس ایس کو ایک انتہاپسند تنظیم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا اور حکومتیں آر ایس ایس کے نظریات کو فروغ دیتی رہیں، تو آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ ہندوستان بھی عالمی سطح پر مزید تنقید کا نشانہ بنے گا۔ عالمی برادری میں آر ایس ایس کے خلاف پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جو ہندوستان کے لیے ایک بڑی سیاسی اور سماجی پریشانی کا سبب بنے گا۔
موہن بھاگوت نے کئی بار اپنے پیروکاروں کو امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملک کو تباہی کی طرف نہیں دھکیلنا چاہیے اور ایک امن پسند معاشرت کی ضرورت ہے۔ ان کے ان بیانات کا مقصد شاید یہی ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے انتہاپسندانہ جذبات کو روکا جا سکے لیکن ان کے پیروکاروں کی طرف سے ان بیانات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اسی طرح، آر ایس ایس کے پیروکاروں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ اس وقت کی انتہاپسندی کی لہر کو نہ روک سکے تو ملک کو ایک سنگین بحران کا سامنا پڑے گا۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔