توتیکورِن انتظامیہ کا ارادہ تحریک چلانے والوں کو چُن چُن کر مارنا تھا!

توتیکورِن میں اب بھی کشیدگی برقرار ہے۔ 22 مئی کو ہوئے تشدد کے بعد بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ انٹرنیٹ خدمات بند ہیں تاکہ لوگوں کو کچھ پتہ نہ چل سکے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کویتا مرلی دھر

22 مئی 2018 کا دن تمل ناڈو کی تاریخ کے سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ فائرنگ میں مظاہرین کی ہلاکت کے واقعہ کو دو دن گزر چکے ہیں لیکن توتیکورن یا توتکوڈی سنگینوں کے سایہ میں نظر آ رہا ہے۔ اس علاقہ کو تمل ناڈو کا پرل سٹی بھی کہا جاتا ہے اور تمل ناڈو میں پیدا ہونے والے نمک کا 70 فیصد حصہ اسی علاقہ سے آتا ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے اس مقام کی کچھ اور ہی شناخت قائم ہو گئی ہے۔

پورے علاقہ میں آلودگی پھیل رہی کمپنی اسٹرلائٹ انڈسٹری کے خلاف جاری احتجاج کا 22 مئی کو 100 واں دن تھا۔ اس دن مظاہرین نے ضلع کلکٹریٹ سے اسٹرلائٹ تک ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ فیکٹری کو بند کرنے کی مانگ کو مضبوطی ملے۔ مظاہرین کے فیصلے کے پیش نظر ضلع کلکٹر این ونکٹیش نے پورے علاقہ میں حکم امتناعی جاری کر دیا تھا ۔ لیکن مظاہرین نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ریلی نکالی۔

پولس نے مظاہرین کو روکنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے ، لیکن جب بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ریلی جوں جوں کلکٹریٹ کی طرف آگے بڑھی پولس اور انتظامیہ نے تمام حدود کو پار کرتے ہوئے نہتے مظاہرین پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولس فائرنگ میں 11 افراد موقع پر ہی جان گنوا بیٹھے اور تقریباً 70 افراد زخمی ہو گئے۔ مہلوکین کی تعداد اب بڑھ کر 13 ہو چکی ہے۔

پولس انتظامیہ کی بے شرمی یہیں ختم نہیں ہو تی۔ تمل ناڈو کے ڈی جی پی ٹی کے راجندرن نے واقعہ کے تعلق سے بیان میں کہا کہ ریلی میں غیر سماجی عناصر موجود تھے اور انہوں نے پولس پر حملہ کر دیا تھا، پولس کو مجبوراً بچاؤ میں گولی چلانی پڑی۔ ریلی میں موجود پیپلزواچ کے ہنری تفاگنے پوسل ان کے اس دعوے سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مظاہرین نے کلکٹریٹ میں داخل ہونے کی صرف کوشش کی تھی ، وہ اسٹر لائٹ انڈسٹریز کے رہائشی کوارٹر سے گزرے اور پولس نے اچانک ان مظاہرین پر فائرنگ شروع کر دی۔‘‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسٹر لائٹ انڈسٹری کے خلاف ہوئے مظاہرے کو لے کر اتنا تنازعہ ہوا ہو۔ سنہ 1996 میں اسٹر لائٹ کاپر قیام کے بعد سے ہی مقامی لوگ اس فیکٹری سے ہونے والی آلودگی پر احتجاج کرتے آئے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس سے قبل اسٹر لائٹ مہاراشٹر کے رتنا گری میں موجود تھی اور جب وہاں کے لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو اسے تمل ناڈو منتقل کر دیا گیا۔ یہاں بھی اس کے خلاف لگاتار احتجاج کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جب اسٹر لائٹ نے توسیع کا اعلان کیا تھا تو احتجاجی مظاہروں میں مزید تیزی آگئی۔

اسٹر لائٹ سے ملحق گاؤں کماریٹی پورم کے باشندگان فیکٹری توسیع کی فروری سے ہی مخالفت کر رہے ہیں ۔ گزشتہ 24 مارچ کو بھی ہزاروں لوگوں نے اس سلسلہ میں مظاہرہ کیا تھا۔

اس فیکٹری سے آلودگی پھیلتی ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اسی بنیاد پر 9 اپریل 2018 کو تمل ناڈو آلودگی کنٹرول بورڈ نے اسٹرلائٹ کے لائسنس کی تجدید کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

فیکٹری کے آلودگی لائسنس کی میعاد مارچ 2018 میں ختم ہو چکی ہے اور وہ بغیر کلیرنس کے چل رہی تھی۔ اتنا ہی نہیں مدراس ہائی کورٹ کی مدورئی بنچ نے اسٹر لائٹ کی توسیع پر تشدد کے ایک دن بعد ہی یعنی 23 مئی کو روک لگا دی اور کہا کہ اس کے لئے عوامی سماعت ہونی چاہئے۔ تشدد کے دو دن بعد تمل ناڈو آلودگی کنٹرول بورڈ نے اسٹر لائٹ کی بجلی کاٹنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اپنے حکم نامہ میں بورڈ نے کہا کہ چونکہ فیکٹری لائسنس کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے، اس لئے اس کی بجلی کاٹ دینی چاہئے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ تحریک کے دوران حکومت کی طرف سے کچھ نہیں کہا جا رہا تھا۔ مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے کہا ’’پوری تحریک کے دوران اسٹر لائٹ کو لے کر حکومت کا رخ واضح نہیں ہو پایا اور وہ خاموش رہی۔ فائرنگ میں ہلاکت کے بعد اب وزیر بول رہے ہیں کہ وہ فیکٹری بند کرانا چاہتے تھے!‘‘

اس معاملہ میں ایک اور حیران کن بات سامنے آئی ہے۔ مظاہرین کے ساتھ انتظامیہ نے 20 مئی کو امن کے لئے مذاکرات کئے اور کہا کہ 22 مئی کی ریلی نہ نکالی جائے کیوں کہ اس میں تشدد ہو سکتا ہے۔ تو کیا یہ تمام منصوبہ حکومت کی طرف سے پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا؟

مظاہرین کا کہنا ہے کہ 22 مئی کو ممکنہ طور پر انتظامیہ نے فیکٹری کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے والوں کو ختم کرنے کی سازش رچی تھی۔ ریوالیوشنری یوتھ فرنٹ کے تھمسرا شر ن ان مظاہرین میں سے ایک ہیں جو 1996 میں فیکٹری قیام میں آنے کے بعد سے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ 100 دن کی ریلی میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ تنظیم سے وابستہ اتھی رام کا کہنا ہے کہ جس وقت تھمسرا شرن کو کافی نزدیک سے گولی ماری گئی تو وہ ان کے پاس ہی تھے ۔ تھمسراشرن کے رشتہ دار ولارمتھی کا کہنا ہے کہ ان پر سمجھوتہ کرنے کا دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ ان کے پاس لوگ طرح طرح کی پیشکش لے کر آتے تھے۔

ذرائع کے مطابق جب تھمسرا شرن کے خاندان نے احتجاجاً لاش لینے سے انکار کر دیا تو پولس نے اس کے چھوٹے بھائی کا اغوا کر کے مارنے کی دھمکی دی۔

اس معاملہ میں وکیل آر شنکر سُبّو کی طرف سے دائر عرضی پر مدراس ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ اگلے حکم تک مہلوکین کی لاشوں کو محفوظ رکھا جائے۔ دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت پورے معاملہ کی جانچ کسی ضلع اور سیشن جج سے کرائے۔ اس معاملہ میں اگلی سماعت 30 مئی کو ہونی ہے۔ شنکر سبو کا کہنا ہے کہ یہ سوچ سمجھ کر کیا گیا قتل ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق تھمسراشرن کے ساتھ ہی تین اور منتظمین سنولین، منی راج اور گلیڈ اسٹن کی بھی موت ہوئی ہے، انہیں بھی پولس کی گولی لگی ہے۔ اتھی رام کا کہنا ہے کہ ’’وہ مظاہرین کو مارنا چاہتے تھے۔‘‘

اتنا سب ہونے کے بعد اگلے دن یعنی 23 مئی کو پھر سے پولس نے فائرنگ کی اور اس میں کالیپّن نام کے 22 سالہ نوجوان کی موت واقع ہوئی۔ اس کے مردہ جسم کو کھینچتے اور جوتوں سے مارنے کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔

تمل ناڈو سرکار نے ضلع کلکٹر اور ایس پی کا تبادلہ کر دیا ہےلیکن ساتھ ہی پورے علاقے کے آس پاس کے تین اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات پر 5 دن کی روک لگا دی ہے۔ تحریک چلانے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار کا یہ قدم صرف اس لیے ہے تاکہ دنیا کو یہ نہ پتہ چل سکے کہ توتیکورِن میں ہو کیا رہا ہے۔ تمل ناڈو کے سیاحتی ادارہ پووُلاگن نمبرگل کے جی سندر رادَن کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہاں ہونے والے حادثات کو چھپانے کے لیے بھی انٹرنیٹ خدمات بند کی گئی ہیں اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ’’سرکار یہاں کشمیر جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 May 2018, 4:27 AM
/* */