پتی، پتنی اور وہ! پرانی کہانی اسمرتی کی زبانی...اعظم شہاب

کانگریس رہنما نے غلطی سے راشٹر پتی کو راشٹر پتنی کہہ دیا اور اس پر معافی مانگ لی لیکن جب پتی اور پتنی کے تنازع میں ’وہ‘ یعنی اسمرتی ایرانی کود پڑیں تو ہنگامہ برپا ہو گیا

پارلیمنٹ میں اسمرتی ایرانی / یو این آئی
پارلیمنٹ میں اسمرتی ایرانی / یو این آئی
user

اعظم شہاب

کوئی رونے کا ہی موڈ بنا بیٹھے تو لطیفے پر بھی وہ دھاڑیں ماردے گا۔ بی جے پی جو پہلے سے ہی مہنگائی پر بحث سے پہلو بچانے کی کوشش کررہی تھی،ادھیر رنجن چودھری کی ہندی دانی سے اسے موقع مل گیا۔اس بیچ میں اسمرتی ایرانی نے اپنی رعونت کا مظاہرہ کرکے رائی کا پہاڑ بنادیا۔

ایوان پارلیمان میں کانگریس کے رہنما نے غلطی سے راشٹر پتی کو راشٹر پتنی کہہ دیا۔ پھر اس پر انہوں نے معافی مانگ لی اور معاملہ ختم ہوگیا۔ لیکن جب اس پتی اور پتنی کے تنازع میں ’وہ‘ یعنی اسمرتی ایرانی کود پڑیں تو اس قدر ہنگامہ برپا ہوا کہ ٹیلی ویژن سے لے کر سوشیل میڈیا اور سارے اخبارات پر چھا گیا۔ دنیا پریشان تھی کہ آخر اسمرتی ایرانی نے اس رائی کا پہاڑ کیوں بنایا؟ اس ایک سوال کے کئی جوابات ہیں۔ سب سے پہلاجواب تو یہ ہے کہ اسمرتی ایرانی کے مزاج میں رعونت پائی جاتی ہے۔ ان کے مغرور ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ 2014 کے انتخاب میں ناکام ہونے کے باوجود انہیں انسانی وسائل کے فروغ کا اہم ترین قلمدان سونپ دیا گیا۔ ایک ایسے فرد کو اگر وزیر تعلیم بنادیا جائے جس کی اپنی ڈگری پر بھی سوال ہوں تو اس کا دماغ خراب ہونا لازمی ہے۔ اسمرتی ایرانی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہوں نے اپنے محکمہ میں افسران کے ساتھ بدتمیزی کی تو وہ بھاگنے لگے اور کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر نے بھی شکایت کی بلکہ استعفیٰ بھی دیا لیکن وزیر اعظم کو کوئی فرق نہیں پڑا۔

اسمرتی ایرانی کی جعلی ڈگری کا معاملہ جب سامنے آیا تو انہیں انسانی وسائل سے بے دخل کرکے نشر واشاعت کا قلمدان دے دیا گیا ۔ وہاں بھی پارٹی کی نیشنل ایکزیٹیو میں نہیں بلائے جانے پر انہوں نے کپڑوں کی دوکان میں کیمرے کا تنازع کھڑا کرکے اپنی جانب میڈیا کو متوجہ کرنے کی بچکانہ کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مودی جی نے ناراض ہوکر انہیں ایک غیر اہم محکمہ یعنی کپڑا منتری بنادیا۔2019کے بعد تو ممکن تھا ان کی چھٹی ہوجاتی مگر اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی۔ان کے ہاتھوں راہل گاندھی کی شکست ہوگئی اس وجہ سے مودی انہیں پھر سے وزیر بنانے پر مجبور ہوگئے۔ انہیں وزیر بہبود برائے خواتین و اطفال کا غیر اہم شعبہ دیا گیا اور چونکہ انہوں نے ایک پارسی سے بیاہ رچا رکھا ہے اس لیے اقلیت میں بھی شمار ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے مختار عباس نقوی کی چھٹی کے بعد اور بھی زیادہ غیر اہم اقلیتی امور کی وزارت کا بھی اضافی چارج انہیں دے دیا گیا۔ ایک تو ان کی مغرور طبیعت اور پھر پارٹی میں اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے اسمرتی ایرانی کو پتی پتنی اور وہ کی کہانی سنانی پڑی۔

اسمرتی ایرانی کے بیٹی زویش ایرانی کے بار کے جعلی لائسنس کو بے نقاب کرکے کانگریس نے چونکہ اسمرتی ایرانی کی وزارت کو خطرے میں ڈال دیا ہے اس لیے وہ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی پر اپنے سیریل ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کی بدزبان بہو کی مانند الجھ پڑیں۔ سونیا تو رما دیوی سے پوچھ رہی تھیں کہ ادھیر رنجن کے معاملے میں ان کو کیوں ملوث کیا جارہا تو وہ اسمرتی اپنے آپ کو رسوا کرانے کی خاطر بیچ میں کود گئیں اوراس پر جب سونیا نے ان کو منہ لگانے سے انکار کردیا تو آگ بگولا ہوگئیں۔ اس معاملے کو دیکھ کر مدثرعزیز کی فلم’پتی، پتنی اور وہ‘ کی یاد تازہ ہوگئی۔ یہ فلم باکس آفس پرکچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی تھی لیکن 1962کی ابرار علوی کی فلم ’صاحب، بیوی اور غلام‘نے کامیابی کے جھنڈے ضرور گاڑ دیئے تھے۔ اس نے بہترین ہندوستانی فلم کا ایوارڈبھی حاصل کیاتھا۔’صاحب، بیوی اور غلام‘ کا اگر ہندی ترجمہ کیا جائے توصاحب ’پتی‘ بن جائیں گے، بیوی’پتنی‘ بنے گی اور غلام (تھوڑی رعایت کے ساتھ)’وہ‘ بن جائے گا۔اب یہ محل استعمال پر ہوگا کہ’وہ‘ سے کیا مراد لیا جائے۔ وہ آشنا بھی ہوسکتا ہے اور غلام بھی۔ لیکن یہ ضرور ہوگا کہ’وہ‘ پتی اور پتنی کے درمیان تنازعے کا سبب بنے گا۔

کانگریس کے ادھیررنجن چودھری نے اپنی ہندی دانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عزت مآب صدرجمہوریہ کو ’راشٹرپتنی‘ کہہ دیا۔ اس پر صدرجمہوریہ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہوا، البتہ ’وہ‘یعنی کہ اسمرتی ایرانی کو اتنا ناگوارگزرا کہ وہ سونیاگاندھی پر برس پڑیں جبکہ سونیاگاندھی کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سے قبل سابق صدرجمہوریہ پرتبھاپاٹل کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاچکا ہے۔چونکہ اس وقت اس لفظ کا استعمال بی جے پی کی سب سے بڑی حلیف پارٹی شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے کیا تھا، اس لیے بی جے پی کو اس میں توہین کا کوئی شائبہ نظرنہیں آیا تھا۔لیکن ہندی زبان میں اپنی کمزوری کی بناء پر جب یہی لفظ ادھیررنجن چودھری کی زبان سے پھسل کر باہر آگیا تو ’چنتن، منتھن‘ والی دنیا کی سب سے بڑی دیش بھکت پارٹی آپے سے باہر ہوگئی۔ اگر چودھری صاحب عزت مآب محترمہ کو پرسیڈنٹ کہہ کر اپنا کام چلالیتے تو بی جے پی یا اسمرتی ایرانی کو شاید ہنگامہ کرنے کا موقع نہیں ملتا اور انہیں معافی مانگنے کی نوبت نہیں آتی، لیکن وہ کہاجاتا ہے نا کہ جب کوئی شخص رونے کا ہی قصد کربیٹھے تو لطیفے پر بھی اس کے آنسو نکل آتے ہیں سو بی جے پی جو پہلے سے ہی ہنگامہ کرنے اور مہنگائی پر بحث سے پہلو بچانے کی کوشش کررہی تھی،اسے موقع مل گیا اور اس نے اس کا فائدہ اٹھاکر ایک اہم مسئلہ کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے میں کا میابی حاصل کرلی۔

لیکن گزشتہ روز جب ادھیررنجن چودھری نے پارلیامنٹ کے اسپیکر سے ایرانی کے خلاف کارروائی اور ان سے غیرمشروط معافی کا مطالبہ کیا تو محترمہ کی سٹی پٹی گم ہوگئی۔اب وہ اس کی صفائی دیتی گھوم رہی ہیں۔دراصل ایرانی صاحبہ پارلیمامنٹ کے ایوان کو بھی اداکاری کا سیٹ سمجھ لیاتھا۔ انہو ں نے ہنگامہ کرنے کی ہوڑ میں صدرجمہوریہ کو ان کے نام سے مخاطب کیا اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار یہی کیا۔ یہ بات پارلیمانی ضابطے کے خلاف ہے۔ لیکن جب رعونت سرچڑھ جائے تو بھلاکس بات کا خیال رہتا ہے۔ ایرانی نے بھی وہی کیا۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے ایک رکن کی زبان پھسل جانے پر آپے سے باہر ہوجانے والی بی جے پی کو اپنی اس ’بہو‘ کی حرکت پر کوئی ندامت نہیں ہے۔دراصل بی جے پی کا یہی وہ سنسکار ہے کہ جب بات اپنوں کی آتی ہے تو وہ خاموشی اختیار کرلیتی ہے لیکن جب اپوزیشن سے وہی حرکت ہوجاتی ہے بھلے ہی وہ سہوا ہوئی ہو، تو وہ شیر بن جاتی ہے۔ ادھیررنجن چودھری نے پارلیمامنٹ میں اپنی تقریر کے قابلِ اعتراض حصے کو خود پارلیمانی ریکارڈ میں نہ لانے کی درخواست کی لیکن بی جے پی کی جانب سے ابھی تک اس ادنیٰ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ تک نہیں ہوسکا۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ بی جے پی کی ایرانی کی اس دریدہ دہنی پر کب افسوس کا اظہار کرتی ہے۔

(نوٹ، مضمون میں جو بھی تحریر ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔