پاکستان کو پچکار، ہندوستان کو جھٹکا...آشیش رے
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی فوجی سربراہ کی مہمان نوازی اور ہندوستان کی سفارتی تنہائی نے عالمی منظرنامے میں توازن بدل دیا، جبکہ ہندوستان کی عسکری برتری پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں

ڈونلڈ ٹرمپ اور عاصم منیر کی اے آئی سےتیار کردہ تصویر
نریندر مودی حکومت کی گزشتہ 11 سالہ حکمرانی کے دوران جو سفارتی غلطیاں ہوتی رہی ہیں، پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد اپنائی گئی حکمت عملی بھی ان سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی منظرنامے پر الگ تھلگ پڑا پاکستان اب ایک بار پھر اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے اور وہ بھی ہندوستان کی قیمت پر۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 18 جون کو وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں، جو ان کے دفتر اور رہائش دونوں کا حصہ ہے، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے اعزاز میں بند کمرے میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ حالیہ ہند-پاکستان فوجی جھڑپ کے بعد منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔ ٹرمپ نے اس موقع پر کہا، ’’عاصم منیر سے ملاقات میرے لیے باعثِ اعزاز ہے۔ پاکستان کو ایران سے متعلق گہری واقفیت ہے۔‘‘ اگر منیر ایران کے ساتھ کسی سمجھوتے میں ٹرمپ کی مدد کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہوگی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے کسی بھی آرمی چیف کو، جب تک کہ وہ صدر نہ بن چکا ہو یا مارشل لا کے تحت حکمران نہ ہو، امریکی صدر کے ساتھ ایسی نجی ملاقات کا اعزاز نہیں ملا۔ اس سے قبل، 11 جون کو قطر میں قائم امریکی سنٹرل کمانڈ کے فارورڈ ہیڈکوارٹر میں جنرل مائیکل کریلا نے بھی پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ’بے مثال شراکت دار‘ قرار دیا۔ یوں ہندوستان کی کوششوں کے برعکس، دنیا کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرنے کی بجائے، مودی حکومت نے دراصل ہندوستان کے دیرینہ دشمن کے لیے ایک بہتر جیو پولیٹیکل ماحول تیار کر دیا ہے۔
نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع کی عمارت پر 2001 میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ چھیڑ دی تھی۔ اس جنگ میں پاکستان امریکہ کا ایک بڑا اتحادی تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ امریکہ کو یہ محسوس ہوا کہ پاکستان نے اسے دھوکہ دیا ہے، جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو گئے۔ یہ وہی وقت تھا جب ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئی اور نتیجتاً امریکہ کی عالمی حکمت عملی میں پاکستان کی اہمیت گھٹ گئی۔
لیکن مودی حکومت کے ’آپریشن سندور‘ کے بعد مغربی ملکوں نے ہندوستان-پاکستان عسکری توازن پر ازسرنو غور کیا۔ اب ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان کے لیے پاکستان کو قابو میں رکھنا آسان نہیں رہا۔ ہندوستان کی روایتی جنگی برتری پر شبہ کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک اگرچہ پاکستان کی فضائی طاقت سے نہیں تو فضائیہ سے ضرور متاثر ہوئے ہیں۔
ہندوستان کے خارجہ سکریٹری وکرم مِسری کی جانب سے جاری بیان میں مودی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چھ ہفتوں کے دوران پہلی بار انہوں نے ٹرمپ کے ان دعووں کو جھوٹا قرار دیا ہے، جن میں وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے ہندوستان-پاکستان جنگ کو روکنے کے لیے تجارتی دباؤ کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ مسری کے مطابق، مودی نے ٹرمپ سے ٹیلی فون پر کہا، ‘‘اس مکمل واقعے کے دوران کسی بھی سطح پر ہندوستان-امریکہ تجارتی معاہدے یا ہندوستان-پاکستان کے درمیان کسی ثالثی کی کوئی بات نہیں ہوئی۔‘‘ مودی نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’ہندوستان نہ تو ثالثی قبول کرتا ہے اور نہ کرے گا۔‘‘
مگر عاصم منیر کے ساتھ ظہرانے سے قبل ہی ٹرمپ نے مودی کی باتوں کو مسترد کر دیا اور ایک بار پھر کہا، ’’ہاں، میں نے جنگ رکوا دی۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مودی ایک شاندار (جو آپ سمجھنا چاہیں) شخصیت ہیں۔ کل رات میری ان سے بات ہوئی۔ ہم ہندوستان کے مودی کے ساتھ تجارتی معاہدے پر کام کر رہے ہیں لیکن میں نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ رکوا دی۔ یہ شخص (منیر) پاکستان کی طرف سے اس میں نہایت مؤثر تھے اور ہندوستان کی جانب سے مودی اور دیگر۔ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں۔‘‘
پاکستان نے ٹرمپ کی اس ’مداخلت‘ کا خیرمقدم کیا اور بار بار ان کا شکریہ ادا کیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق، عاصم منیر نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کو روکنے کے اقدام پر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ اس قسم کی چاپلوسی سے ٹرمپ جیسے شخص کے ساتھ طویل شراکت داری قائم کی جا سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے سب سے خطرناک انسان ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کی خطرناک پالیسی کے ذریعے وہ دنیا کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اسرائیل مسلسل غزہ پر بمباری کر رہا ہے جس میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ 12 جون کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں ’فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی‘ کے حق میں پیش کی گئی قرار داد کی حمایت 149 ملکوں نے کی، جن میں امریکہ کے دیرینہ اتحادی جیسے فرانس، برطانیہ، جرمنی، جاپان، اٹلی اور کینیڈا بھی شامل تھے۔ مگر امریکہ ان 14 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔
ہندوستان کی نریندر مودی حکومت نے اقوام متحدہ میں اپنے مستقل نمائندے کو ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا حکم دیا۔ کل 19 ممالک نے ووٹنگ سے خود کو الگ رکھا۔ اس سے ہندوستان اس ترقی پذیر دنیا میں تنہا ہو گیا جس کا وہ کبھی رہنما ہوا کرتا تھا۔
ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے گزشتہ برس اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ اس کے ردعمل میں ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر (جو ہندوستان میں صدارتی آرڈیننس کے مترادف ہے) جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ آئی سی سی نے ’’امریکہ اور ہمارے قریبی اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنا کر غیر قانونی اور بے بنیاد اقدام کیا ہے۔‘‘ ٹرمپ انتظامیہ نے ساتھ ہی آئی سی سی کے برطانوی پراسیکیوٹر کریم خان پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔
اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر میزائل حملے کیے اور زمینی کارروائی کے ذریعے خطے میں جارحیت کا دائرہ خطرناک حد تک پھیلا دیا۔ شروع میں ٹرمپ نے تاثر دیا کہ ان کا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر جب وہ G-7 سربراہی اجلاس کو ادھورا چھوڑ کر واپس آئے اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا، ’’ہمیں معلوم ہے کہ مبینہ سپریم لیڈر (آیت اللہ علی خامنہ ای) کہاں چھپے ہیں۔ وہ ایک آسان ہدف ہیں، مگر محفوظ ہیں۔ ہم ابھی انہیں مارنے نہیں جا رہے، کم از کم فی الحال نہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ میزائل عام شہریوں یا امریکی فوجیوں پر گرے۔ ہمارا صبر لبریز ہو چکا ہے۔‘‘ تو حقیقت عیاں ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ایران سے ’غیر مشروط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ کیا۔
ایک دن پہلے انہوں نے کہا تھا، ’’ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہو سکتے۔ ہم ہر زاویے سے نگرانی کر رہے ہیں اور ان کی فضاؤں پر ہمارا مکمل کنٹرول ہے۔ وہ جانتے ہیں اور خوف زدہ ہیں۔ اگر انہوں نے ایٹمی ہتھیار کی طرف ایک قدم بھی بڑھایا، تو ان کا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔‘‘ بعد ازاں ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے نیتن یاہو کو ’حملے جاری رکھنے‘ کی ترغیب دی تھی۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس کا سخت جواب دیا اور کہا، ’’جو لوگ ایران، اس کی قوم اور اس کی تاریخ سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس ملک سے دھمکیوں کی زبان میں بات نہیں کی جا سکتی، کیونکہ ایرانی سر جھکانے والے لوگ نہیں۔‘‘ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے ان کے اس بیان کو نشر کیا، ’’کسی بھی امریکی فوجی مداخلت کا نتیجہ ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔