پدم ایوارڈ: جنوبی قلعہ فتح کرنے اور ذات پر مبنی مساوات پر نشانہ لگانے کی کوشش، مگر منزل ہنوز دور است

تو کیا قبول کر لیا جائے کہ بی جے پی میں مبینہ طور پر مودی ہی سب کچھ ہونے کے باوجود زعفرانی جماعت کو جنوبی قلعہ کا دروازہ کھولنا دشوار نظر آتا ہے؟

<div class="paragraphs"><p>پدم ایورڈز / سوشل میڈیا</p></div>

پدم ایورڈز / سوشل میڈیا

user

تسلیم خان

انتخابی سال میں سماجی انصاف کی علامت بہار کے سابق وزیر اعلیٰ کرپوری ٹھاکر کو ’بھارت رتن‘ اور پدم ایوارڈز کی فہرست میں جنوبی ہند کے غلبے کے علاوہ او بی سی، درج فہرست ذاتوں اور قبائل، مسلمان، عیسائی، بدھ مت، جین اور پارسی وغیرہ سے وابستہ شخصیات کی موجودگی نے بی جے پی کے سیاسی ارادوں کے اشارے دیے ہیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مغربی بنگال اور جنوبی ہندوستان اب بھی اس کے لیے دشوار ہیں۔

اگر ہم اس بار کے پدم ایوارڈز کی فہرست کو ذاتوں کی بنیاد پر دیکھیں تو اس میں 40 او بی سی، 11 درج فہرست ذات، 15 درج فہرست قبائل، 9 عیسائی، 8 مسلمان، 5 بدھ، 3 سکھ، 2 جین، 2 پارسی اور 2 دیگر مذاہب سے وابستہ شخصیات شامل ہیں۔ اگر خطے کی بنیاد پر دیکھا جائے تو جنوبی ہندوستان سب سے آگے نظر آتا ہے۔ جن 5 لوگوں کو پدم وبھوشن سے نوازا گیا ہے ان میں سے 2 کا تعلق آندھرا پردیش، 2 کا تمل ناڈو اور ایک بیدیشور پاٹھک کا تعلق بہار سے ہے، جنہیں یہ اعزاز بعد از مرگ دیا گیا ہے۔ آندھرا سے ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں فلم اداکار چرنجیوی اور سابق نائب صدر اور بی جے پی صدر ایم وینکیا نائیڈو شامل ہیں۔ وہیں، تمل ناڈو سے فلم اداکارہ وجینتی مالا اور کلاسیکل ڈانسر پدما سبرامنیم کے نام شامل ہیں۔

پدم بھوشن ایوارڈز کی فہرست میں جہاں مہاراشٹر اور مغربی بنگال نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، وہیں کیرالہ اور تمل ناڈو بھی نمایاں ہیں۔ ان ریاستوں کے نام بھی پدم شری ایوارڈز کی فہرست میں بار بار آتے ہیں۔

تو کیا قبول کر لیا جائے کہ بی جے پی میں مبینہ طور پر مودی ہی سب کچھ ہونے کے باوجود زعفرانی جماعت کو جنوبی قلعہ کا دروازہ کھولنا دشوار نظر آتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی جنوبی ہند میں کرناٹک سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے اور اپنے اختیار میں ہر وسائل (سما، دام، ڈنڈ، بھید) استعمال کرنے کے باوجود وہ تلنگانہ میں دوسرے مقام والی پارٹی بھی نہیں بن پائی ہے۔ کیرالہ اور تمل ناڈو اب بھی ان کے لیے خواب کی طرح ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے پہلے وزیر اعظم مودی جنوبی ہندوستان کے مندروں میں پوجا کر رہے تھے اور علاقائی معروف ہستیوں کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے۔


سینئر صحافی اور ستیہ ہندی ڈاٹ کام کے ایڈیٹر آشوتوش کا بھی کہنا ہے کہ آندھرا، تلنگانہ اور تمل ناڈو بی جے پی کی کمزور ترین کڑیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’وزیراعظم مودی کا جنوب کے مندروں کا دورہ، مقامی معروف ہستیوں کو سلام کرنا وغیرہ بے وجہ نہیں تھا۔ اگرچہ اسے عقیدے کا نام دیا گیا لیکن وہ ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘ آشوتوش کا مزید کہنا ہے، ’’تمام کوششوں کے باوجود تلنگانہ میں بی جے پی کو جو جھٹکا لگا ہے وہ اس کے لیے ایک سبق ہے اور اسی لیے پدم ایوارڈز کے ذریعے اس سے نمٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘

صحافی اور مفکر دلیپ منڈل اس کی مختلف جہتیں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بھارت رتن اور پدم ایوارڈز کا اعلان ہمیشہ انتخابی سالوں میں صرف سیاسی پیغامات اور وجوہات کی بنا پر کیا جاتا ہے۔‘‘ دلیپ منڈل کے مطابق، ’’اگر کوئی سیاسی پارٹی کسی خاص علاقے یا شخص کو پدم ایوارڈ دے کر 100-50 ووٹوں کا فائدہ دیکھتی ہے، تو وہ اس موقع کا ضرور فائدہ اٹھاتی ہے۔

تو کیا پدم ایوارڈز کی فہرست میں او بی سی، ایس سی-ایس ٹی کے علاوہ مسلمانوں کی موجودگی کو بی جے پی کی سوشل انجینئرنگ کی مشق سمجھا جائے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ رام مندر، ہندوتوا، مودی کی مبینہ مقبولیت اور کاغذ پر ہی صحیح ہندوستان کے وشو گرو بننے کے دعوے انتخابات جیتنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ سینئر صحافی پونیا پرسن واجپائی اس سے متفق نظر نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’بی جے پی کے ساتھ ملک کو مودی کا پیغام واضح ہے کہ ان کا وجود ہی سب کچھ ہے۔ انہوں نے ایک ایسی سیاست شروع کی ہے جو روایتی سیاست سے ہٹ کر ایک ایسی بڑی لکیر کھینچ لی ہے جس کے سامنے باقی تمام سیاسی جماعتوں کی لکیریں چھوٹی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’دوسری پارٹیوں کی سیاسی لکیریں نہ صرف چھوٹی کر دی گئی ہیں بلکہ یہ بیانیہ بھی لگاتار قائم کیا جا رہا ہے کہ ان کی لکیریں بی جے پی کی لکیر سے بڑی نہیں ہو سکتیں۔‘‘

آشوتوش پدم ایوارڈز میں مسلمانوں، عیسائیوں وغیرہ کی نمائندگی کو محض علامت قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اسے علامتوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اگر واقعی مودی اور ان کی بی جے پی نے مسلمانوں کے تئیں اپنا ذہن بدل لیا ہے تو بی جے پی کسی مسلمان کو انتخابی ٹکٹ کیوں نہیں دیتی؟ مودی کی کابینہ میں ایک بھی مسلمان کیوں نہیں ہے؟ اتر پردیش میں بی جے پی کا کوئی ایم ایل اے مسلمان کیوں نہیں ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر سب کا ساتھ-سب کا وکاس کے نعرے کو واقعی لاگو کرنا ہے تو بی جے پی کو زمین پر ایسا کرنا پڑے گا۔ آشوتوش سوال اٹھاتے ہیں، ’’زمینی سطح پر مسلمانوں کے تئیں بی جے پی کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ممبئی میں میرا روڈ کا حالیہ واقعہ اس کا ثبوت ہے۔


جنوبی ہند کے علاوہ مغربی بنگال اور بہار بھی بی جے پی کے لیے مشکل رہے ہیں۔ تاہم، بی جے پی نتیش کمار کی جے ڈی یو کے ساتھ بہار میں برسراقتدار رہی اور اسے لوک سبھا انتخابات میں بھی فائدہ ہوا۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف نظر آ رہی ہے، خاص کر نتیش کے جانے کے بعد۔ لیکن پونیا پرسن واجپائی کا ماننا ہے، ’’جو بھی کہا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی بہار اور بنگال دونوں میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے، جسے ڈیڑھ دو دہائی قبل تک ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ ایسی صورت حال میں کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینا نہ صرف علامتی ہے بلکہ اس طبقے کو مزید تقویت بھی دیتا ہے جو بی جے پی کے پالے میں آ چکا ہے۔‘‘

لیکن آشوتوش اس سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بی جے پی نے اپنے ایجنڈے کے حوالے سے تنازعہ برقرار رکھا ہے، جسے وہ خود توڑنا نہیں چاہتی۔ اس کے باوجود بہار اور بنگال اس کی کمزور کڑی ہی رہیں گے۔

اگرچہ پدم ایوارڈز کے حوالے سے تجزیہ اور تنازعہ کوئی پرانی بات نہیں ہے تاہم یہ سچ ہے کہ ان ایوارڈز کے اعلان کے پیچھے سیاسی، ذاتی اور دیگر باتوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ اور خواہ کوئی بھی حکومت ہو وہ اس لالچ سے اچھوتی نہیں رہی۔ سیاست نے جس طرح معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے، فن کا شعبہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی فن، تعلیم، سماجی خدمات اور سیاست سے وابستہ لوگوں کو اعزاز سے نوازا جا رہا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پدم ایوارڈ کے پیچھے سیاسی ارادوں پر سوال اٹھنا فطری ہے۔

اس سال جن 132 لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کے انتخاب میں خامی نکالنا مشکل ہوگا لیکن ذات اور علاقے کی بنیاد پر اس کا تجزیہ حکمران جماعت کے ارادوں اور اس کے خطے کے لحاظ سے درپیش چیلنجز کو ضرور واضح کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔