اپوزیشن اتحاد ملک و بی جے پی مخالف جماعتوں کی موت و زندگی کا سوال

سب پر عیاں ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا سب سے معنی خیز تجربہ سونیا گاندھی کو ہی ہے۔ 2004 کے لوک سبھا چناؤ سے قبل انہوں نے ہی حزب اختلاف کو یکجا کر بی جے پی کے اٹل بہاری واجپئی جیسے لیڈر کو شکست دی تھی۔

<div class="paragraphs"><p>اپوزیشن لیڈران</p></div>

اپوزیشن لیڈران

user

ظفر آغا

ہندوستانی مرکزی سیاست میں جس شئے کی سب سے زیادہ کمی ہے، اس کے اب ختم ہونے کے امکان واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ سب واقف ہیں کہ ایک دہائی سے بی جے پی کے لیے سیاسی میدان کسی بھی معنی خیز اختلاف کے بغیر خالی پڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسرے تمام اسباب کے ساتھ بی جے پی اور اس کے مرکزی ہیرو نریندر مودی اس کا کھلا فائدہ حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب پر عیاں ہے کہ اس کا بنیادی سبب حزب اختلاف کی آپسی پھوٹ ہے۔ چناوی اعداد و شمار سے واضھ ہے کہ آج بھی ہندوستان میں غیر بی جے پی پارٹیوں کا کل ووٹ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں سے زیادہ ہے۔ پھر بھی پچھلے دو لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی شاندار فتح حاصل کرتی رہی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے، اس کو بی جے پی مخالف سیاسی جماعتیں بھی بخوبی سمجھتی ہیں، لیکن پھر بھی ابھی تک اس کمزوری کو ختم کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس غلطی کا خمیازہ محض حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ پورا ملک اور بی جے پی مخالف ووٹر، خصوصاً اقلیتیں بھگت رہی ہیں۔

لیکن پچھلے تقریباً ایک ماہ میں حزب اختلاف نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ جس اپوزیشن اتحاد کا شور ابھی حال تک ہواؤں میں تھا، وہ اب زمینی حقیقت کی شکل بننے لگا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بی جے پی مخالف جماعتوں کو متحد کرنے کی جو شروعات پٹنہ میں کی تھی، اس کا اب دوسرا قدم کانگریس اسی ماہ چند روز میں اٹھنے والی ہے۔ کانگریس کے دعوت نامہ پر اگلے ہفتے ملک کی چھوٹی بڑی 24 بی جے پی مخالف پارٹیاں بنگلورو میں مل رہی ہیں۔ ان کا مرکزی مقصد بی جے پی کے خلاف مل کر سنہ 2024 کا چناؤ لڑنا ہے۔ اہم بات اس میٹنگ کی یہ ہے کہ پٹنہ میں تقریباً 18 پارٹیاں تھیں، جبکہ بنگلورو میں ان کی تعداد 24 ہوگی۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی مخالف پارٹیوں کو بھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ سنہ 2024 ان کے لیے کرو یا مرو جیسا لمحہ ہے۔ مودی حکومت نے بی جے پی مخالف علاقائی پارٹیوں میں پھوٹ پیدا کر یہ واضح کر دیا ہے کہ اب اس کے لیے مشکل وقت آ گیا ہے۔ اس پر سے ستم یہ کہ ای ڈی کی لٹکتی تلوار سے سب پر عیاں ہے کہ اگر بچے بھی تو بقیہ زندگی جیل میں ہی کٹے گی۔ اس لیے بی جے پی مخالف پارٹیوں کی اب یہ مجبوری ہے کہ وہ مل کر لڑائی لڑیں ورنہ پھر انجام ظاہر ہے۔


الغرض حزب اختلاف پارٹیوں کا خوش آئند عمل شروع ہو چکا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس عمل کا مرکزی کردار اب کانگریس نظر آنے لگی ہے۔ یہ کسی سے چھپا نہیں ہے کہ کوئی بھی اپوزیشن اتحاد بغیر کانگریس کی شمولیت کے بے معنی و بے سود ہے۔ اس ہفتے بنگلورو میں ہونے والی میٹنگ کی کمان کانگریس کے ہی ہاتھوں میں ہوگی۔ اس میٹنگ کی شروعات ایک روز قبل سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کے عشائیہ سے ہوگی۔ سب پر عیاں ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا سب سے معنی خیز تجربہ سونیا گاندھی کو ہی ہے۔ 2004 کے لوک سبھا چناؤ سے قبل سونیا گاندھی نے ہی حزب اختلاف کو یکجا کر بی جے پی کے اٹل بہاری واجپئی جیسے لیڈر کو شکست دی تھی۔ وہ بخوبی واقف ہیں کہ کس اپوزیشن لیڈر کو کس طرح ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ کانگریس اور تمام بی جے پی مخالف پارٹیاں سونیا گاندھی کے تجربہ سے مستفید ہو سکتی ہیں۔

تمام بی جے پی مخالف جماعتوں کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ اتحاد کے موقع پر ان کو یہ احساس و خیال چاہیے کہ کون جماعت کس حد تک پیر پھیلا سکتی ہے۔ دو چار سیٹوں کی آپسی لڑائی محض ان کے لیے نہیں بلکہ سارے ملک پر بھاری پڑنے والی ہے۔ اس لیے ہر جماعت کو اپنے بنیادی مفاد کے تحفظ کے ستھ ساتھ دوسروں کے مفاد کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ اس بات کی سب سے زیادہ ذمہ داری کانگریس پارٹی پر ہے۔ اس سلسلے میں پٹنہ میٹنگ میں راہل گاندھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کی پارٹی کا رویہ نرم رہے گا۔ اب علاقائی پارٹیوں کو اس سلسلے میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ لب و لباب یہ کہ سنہ 2024 ملک و اپوزیشن دونوں کے لیے موت و زندگی کا مرحلہ ہے۔ ذرا سی لغزش اور انجام قیامت۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Jul 2023, 10:11 AM