ہم نے دوستی کے دائرے کو کتنا محدود کر لیا ہے!...آشیش رے

سفارت کاری تبھی کامیاب ہوتی ہے جب اسے وسیع پیمانے پر سراہا جائے لیکن اگر ایسی تعریف نہیں ہو رہی تو واضح ہے کہ یہ سفارتی ناکامی ہے

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر / فائل تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر / فائل تصویر / آئی اے این ایس

user

آشیش رے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپریشن سندور کے بعد عالمی حمایت حاصل کرنے کی مودی حکومت کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں۔ ان نمائندہ وفود کے روانہ ہونے سے قبل ہی ہندوستان کے موقف کے لیے حمایت کی کمی (پڑھیں: دنیا ہماری کہانی پر کتنا یقین کرتی ہے؟... آشیش رے) برقرار ہے اور اس کے لیے گزشتہ 11 سالوں سے خارجہ پالیسی کی باگ ڈور سنبھالے افراد کی سفارتی بصیرت پر سوال اٹھنا فطری ہے۔

کامیاب سفارتکاری وہی ہوتی ہے جو وسیع سطح پر تحسین پائے لیکن موجودہ حکومت کے دور میں ایسا نہیں ہو پایا۔ دراصل، حکومت کے تمام سفارتی اقدامات محض ایک شخص کی تشہیر کے لیے ہیں، جس کی عالمی بصیرت (یا اس کی کمی) نے ہندوستان کو دنیا سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔

جبکہ غیر ملکی حکومتیں یقیناً ہندوستان اور پاکستان کے مابین کسی عسکری تصادم کو لے کر فکرمند تھیں لیکن ان کے عوام اور میڈیا کی توجہ یوکرین پر روس کے حملے اور غزہ میں اسرائیل کی بربریت پر مرکوز رہی۔ دنیا نئے پوپ کے انتخاب، تجارت کے معاہدوں اور بریگزٹ کے بعد یورپ میں پیدا شدہ کشیدگی پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ ایسے میں مودی کی قیادت والی ہندوستانی خارجہ پالیسی عالمی دھارے کے برعکس چل رہی ہے۔

اپریل 2024 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے غزہ میں اسرائیل کی زیادتیوں پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں اسرائیل کو جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اسرائیلی افواج کو اسلحے کی فراہمی بند کرنے کی اپیل کی گئی۔ ہندوستان نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ حتیٰ کہ بعض اسرائیلی راکٹوں پر 'میڈ ان انڈیا' کا لیبل بھی نظر آیا۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ووٹ دیا، مگر ہندوستان نے پھر بھی غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ عالمی جنوب کی قیادت کبھی ہندوستان کے حصے میں تھی لیکن آج وہ خود اس حلقے میں الگ تھلگ ہے۔ رواں برس باندونگ کانفرنس میں جواہر لال نہرو کے تاریخی کردار کی 70 ویں سالگرہ بھی ہے، جو ایک یاد دہانی ہے۔


غزہ پر اسرائیلی بمباری میں سینکڑوں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد پہلی مرتبہ اسرائیل کے حامی سمجھے جانے والے فرانس اور برطانیہ نے بھی اس سے فاصلہ اختیار کیا ہے اور ممکنہ طور پر وہ جی-7 میں سب سے پہلے فلسطینی انتظامیہ کو سفارتی حیثیت دینے والے ممالک بن سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخصیت پرست لیڈر بھی اب صبر کھو چکا ہے۔

پہلگام میں سیاحوں کے بہیمانہ قتل کے بعد جب ہندوستان نے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا ارادہ کیا، تو روس نے نہ صرف آپریشن سندور کی حمایت سے گریز کیا بلکہ ہندوستان کو صبر و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ برطانیہ نے بھی نرم رویہ اپنانے کی تاکید کی۔

اس کے باوجود، ہندوستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کر سکتا کیونکہ مغربی پابندیوں کے درمیان وہ روس سے اسلحہ اور تیل خریدتا رہا، جس سے روسی معیشت کو سہارا ملا لیکن بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی کمزور حالت نے روس کو بھی محتاط کر دیا ہے۔

مودی کے برسر اقتدار آتے ہی امریکہ سے قریبی تعلقات نے روس کو بے چینی میں مبتلا کر دیا۔ اس کے بعد روس کا ہندوستان سے تعلق خالصتاً تجارتی رہ گیا۔ چین تو کبھی دوست تھا نہیں، مگر اب کھلا دشمن ہے۔ اگرچہ فرانس سے تعلقات مضبوط ہوئے لیکن وہ چین کی جگہ نہیں لے سکتا۔

جب یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ نے ہندوستان-روس معاشی تعلقات پر سوال اٹھائے، تو وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان ماسکو کو بیجنگ کے مزید قریب جانے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس اور چین کبھی اتنے قریب نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ جے شنکر کی باتیں ہندوستانی خوشامدی میڈیا کو تو متاثر کر سکتی ہیں، مگر حقیقت میں وہ ’نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے‘ کے مصداق ہے۔


ہندوستان نے دنیا بھر میں سات وفود بھیجے تاکہ پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف غصے کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن سندور کا جواز پیش کیا جا سکے لیکن ان وفود میں زیادہ تر وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں جنہیں خارجہ امور کا کوئی تجربہ نہیں۔ اب تک یہ کسی ملک کے صدر یا وزیراعظم تو دور، کسی وزیر سے بھی نہیں مل سکے۔ خیر، یہ دنیا میں سیر و تفریح کا بہترین وقت ہے!

یہ سب محض ٹیکس دہندگان کے پیسے کی بربادی ہے۔ دنیا بھر میں گھوم کر یہ کہنا کہ ’ہندوستان دہشت گردی کے خلاف پرعزم ہے‘ اور ’اس عالمی مسئلے پر بین الاقوامی یکجہتی ضروری ہے‘ کوئی نئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی اور جے شنکر نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ ابھی تک کسی بھی ملک نے پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست نہیں کہا۔

ممبئی کے 2008 کے حملے کے بعد بین الاقوامی برادری نے نہ صرف ہندوستان کی حمایت کی بلکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں بھی شامل کروایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مضبوط سفارتکاری عسکری طاقت سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ کسی بھی پی-5 ملک نے آپریشن سندور کی حمایت نہیں کی، جبکہ چین نے پاکستان سے کھلے عام اتحاد دکھایا اور ترکی جیسے نیٹو رکن نے پاکستانی فوج کو ہتھیار دیے۔

ہندوستان کے قریبی اتحادی بھوٹان نے پہلگام حملے کی مذمت کی اور ہندوستان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ نیپال، جس کا ایک شہری حملے میں مارا گیا، اس نے بھی احتجاج کیا اور پاکستانی سفارت خانے کو احتجاجی مراسلہ دیا۔ مگر کسی نے بھی پاکستان کی حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ نہ بنگلہ دیش نے ساتھ دیا، نہ سری لنکا نے۔


دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے بہت کم ملک اپنی ترجیحات میں شمار کرتے ہیں۔ اسی لیے بیشتر ممالک نے بے گناہ سیاحوں کے قتل کی مذمت کی اور ہندوستان سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کسی نے نہیں کی۔ سب یہ جاننا چاہتے ہیں: کیا پہلگام حملے کے ذمہ داروں کی کوئی خفیہ اطلاع موجود ہے؟ کیا آپریشن سندور کا ان سے تعلق ہے؟ کیا 6-7 مئی کی کارروائی میں واقعی کوئی مجرم مارا گیا؟

بہتر خارجہ پالیسی داخلی سلامتی اور دفاع پر ہونے والے اخراجات کو کم کرتی ہے۔ 2014 کے بعد ان اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جو مودی اور جے شنکر کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ ان کے دور میں پاکستان کے ساتھ دو عسکری تصادم ہو چکے ہیں۔ 2020 میں چین نے لداخ کے ایک ایسے علاقے پر قبضہ کر لیا جسے 1993 کے معاہدے کے بعد سے ہندوستان کا حصہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ 2017 میں چین نے سکم کے قریب ڈوکلام میں بھی ایسی ہی دراندازی کی کوشش کی۔

جبکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے 10 سالہ دورِ حکومت میں چین یا پاکستان سے کوئی مسلح تصادم نہیں ہوا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہوں نے ہندوستان کی دفاعی تیاریوں سے کوئی سمجھوتہ کیا۔ آئی این ایس وکرامادتیہ کو بحریہ میں شامل کیا گیا، اسرائیل سے جدید ڈرونز اور نگرانی کے آلات حاصل کیے گئے اور پہلی بار امریکہ سے لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر اور اینٹی شپ میزائل خریدے گئے۔ حتیٰ کہ فرانسیسی رافیل طیاروں کے لیے معاہدہ بھی انہی کے دور میں طے پایا۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مضبوط دفاع اور دانشمندانہ خارجہ پالیسی ایک دوسرے کے متقابل نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔