راہباؤں کے جذبات کو سلام!... حمرا قریشی

مریضوں کی دیکھ بھال، یتیم خانوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں کام کرنے سے لے کر سستی شرح پر تعلیم فراہم کرنے تک راہباؤں کا جذبہ قابل قدر ہے، پھر بھی کئی مقامات پر عیسائی مخالف تشدد جاری ہے

<div class="paragraphs"><p>راہبائیں / Getty Images</p></div>

راہبائیں / Getty Images

user

حمرا قریشی

کرسمس کی آمد قریب ہے۔ اس موقع پر مجھے اس ہفتے کا کالم مدر ٹریسا سے منسلک اس انتہائی اہم واقعہ سے شروع کرنا چاہیے جب خشونت سنگھ نے مدر ٹریسا سے بہت اہم سوال کیا تھا۔ سوال تھا ’’آخر آپ جذام اور گینگرین جیسی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو کس طرح چھو سکتی ہیں؟ کیا آپ کو دست اور ہیضہ کی قے میں لپٹے گندے لوگوں سے نفرت نہیں ہوتی؟‘‘ انھوں نے بہت اطمینان کے ساتھ جواب دیا تھا کہ ’’میں ہر انسان میں عیسیٰ کو دیکھتی ہوں...۔‘‘

مدرس ٹریسا نے شدید مشکل میں پھنسے کسی بھی انسان کے تئیں اپنی بے لوث ایمانداری کا ثبوت دیتے ہوئے خلوص نیتی کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے بے شمار لوگوں کی جان بچائی، مجبور لوگوں کو پناہ اور کھانا دستیاب کرایا۔ ایسی راہباؤں اور ان کے جذبات کو سلام جس کے ساتھ وہ ہمارے درمیان رہ کر سینکڑوں لوگوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ مریضوں کی دیکھ بھال، یتیم خانوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں کام کرنے سے لے کر سستی شرح پر تعلیم فراہم کرنے تک ان کا جذبہ قابل قدر ہے۔ پھر بھی کئی مقامات پر عیسائی مخالف تشدد جاری ہے۔ آسٹریلیا عیسائی مشنری گراہم اسٹیسن اور ان کے دو چھوٹے بیٹوں کو اڈیشہ میں بجرنگ دل کے اراکین نے جلا کر مار ڈالا، ہجومی تشدد یعنی ماب لنچنگ اور گرجا گھروں و عیسائی اسکولوں کے ساتھ ساتھ عیسائی طبقہ سے جڑے املاک کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دایاں محاذ سے منسلک لوگوں کے ذریعہ یہ گمراہی پھیلائی جا رہی ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کے سبب عیسائی آبادی بڑھ رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں عیسائی آبادی گھٹ گئی ہے۔


استاد ذاکر حسین کی اپنی بیوی انٹونیا سے حد درجہ محبت

میں نے کئی سال قبل نئی دہلی کے ایک مشہور کافی کیفے میں ماہر طبلہ نواز استاد ذاکر حسین سے ملاقات کی تھی اور ان کا انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران انھوں نے اپنے بچپن اور اپنے والدین کے بارے میں بات چیت کی۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں کلاسیکی موسیقی کے سازوں پر بھی گفتگو کی۔ اس انٹرویو کے درمیان کئی مرتبہ رخنہ پیدا ہوا، کیونکہ بھیڑ بھاڑ والی اس جگہ پر استاد ذاکر حسین کے شیدائی ان سے ملے بغیر رہ نہیں پا رہے تھے۔ ان کے کئی مداح آٹوگراف مانگ رہے تھے، اور کچھ لگاتار ان کے چہرے کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ کچھ شائقین تو حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ٹی سی سنگیت سمیلن میں استاد ذاکر حسین کی سحر انگیز کارکردگی کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ان رکاوٹوں نے مجھے پریشان کیا لیکن وہ کافی پر سکون نظر آئے۔ بار بار ہو رہی رکاٹوں کے باوجود وہ میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے ’’یہ آپ میڈیا کے لوگ ہیں جنھوں نے مجھے نمبر 1 ٹیبل پلیئر بنا دیا ہے... حقیقت تو یہ ہے کہ میں بس ’ٹھیک ٹھاک‘ ہی ہوں۔‘‘

استاد ذاکر حسین نے مجھے بتایا کہ ان کے والد استاد اللہ رکھا قریشی اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے جنھوں نے کلاسیکی موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا۔ خاندان کے دیگر افراد جموں و کشمیر کے رتن گڑھ ضلع کے پگوال میں کسان تھے۔ انہوں نے یہ بھی جانکاری دی کہ وہ بہت سادہ طرز زندگی پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں بہت سادہ عادتوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ بہت سادہ کھانا پسند ہے اور میں سگریٹ نوشی یا شراب نوشی نہیں کرتا۔‘‘


مداحوں کی طرف سے مسلسل انھیں توجہ دیے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے استاد ذاکر حسین نے کہا کہ اس سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور نہ ہی ان کی توجہ متاثر ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے لیے ان سب کی کوئی اہمیت نہیں۔ سوائے انٹونیا کے میرا کبھی کوئی رشتہ نہیں رہا۔ انٹونیا، جس سے میں نے شادی کی تھی، اور یہ 1978 کی بات ہے۔ یہ انتہائی خوشگوار شادی رہی ہے۔ ہم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی مسلمان، ہندو، عیسائی یا امریکی سے شادی کریں، اس میں اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ کی روحیں ملنی چاہئیں۔ میرا ماننا ہے کہ یہی شادی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ آپ کی روحیں مل جائیں تو باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

استاد ذاکر حسین نے اپنی شریک حیات کے بارے میں کچھ اہم باتیں سامنے رکھیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح انٹونیا نے اپنی 2 بیٹیوں کی دیکھ بھال کے لیے کتھک ڈانسر کے طور پر اپنا کیریئر قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس نے ممبئی میں کتھک کی تربیت حاصل کی اور اگر ممبئی میں اس کا قیام ہوتا تو اس کے کیریئر کے لیے بہترین ہوتا۔ ایسا اس لیے کیونکہ اس کے استاد ممبئی میں ہی ہیں۔ لیکن اس نے ہماری بیٹیوں کی تعلیم کی وجہ سے سان فرانسسکو منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔