اب ’ایک ملک ایک الیکشن’ کا شوشہ!

اب جبکہ بی جے پی مرکز میں 10 سال سے اقتدار میں ہے تو عوام میں حکومت مخالف لہر پائی جارہی ہے۔ اسی کو محسوس کرتے ہوئے ’ایک ملک ایک لیکشن‘ کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>ون نیشن ون الیکشن / علامتی تصویر</p></div>

ون نیشن ون الیکشن / علامتی تصویر

user

نواب علی اختر

اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ نے باضابطہ طور پر ابھی کوئی مکمل عملی اقدام نہیں کیا ہے،صرف انگڑائی لی ہے مگر حکمراں طبقے میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیت کو گالی دیکراکثریت کو خوش کرکے آسانی سے اقتدارحاصل کرنے کاخواب دیکھنے والے سیاستدانوں نے انتخابی ریاستوں میں’مفت کی ریوڑیاں‘ بانٹنا شروع کردی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مخالفت پارٹی کی حکومت کی جانب سے عوام کومفت یارعایتی سہولیات فراہم کرنے پراعتراض کرتے ہوئے ہنگامہ کرتے تھے۔ مگراب جبکہ انتخابی موسم آگیا ہے اورانہیں اپنی کرسی خطرے میں لگ رہی ہے تو انہوں نے وہی کیا ہے جو دوسرے کرتے تھے توان پر’مفت ریوڑیاں‘ کہہ کرسوال کھڑے کرتے تھے۔

اتنا ہی نہیں اسرو کے سائنسدانوں کے ذریعہ چاند اورسورج پر کمند ڈالنے کا کریڈٹ خود لینے والی مودی حکومت نے تواب ’ایک ملک ایک الیکشن‘ کا شوشہ چھیڑدیا ہے جس سے صاف ہے کہ بھگوا بریگیڈ کو اپنے تاریک مستقبل کا احساس ہوگیا ہے۔اسی وجہ سے انتخابی ریاستوں میں سلینڈر،موبائل فون یا اسی طرح کی دیگرسہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا جانے لگا ہے۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان ایک وسیع وعریض ملک ہے جہاں تقریبا ہر چند ماہ میں کسی نہ کسی ریاست میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں کارپوریشن کے انتخابات بھی ہوتے ہیں تو کہیں ضلع پریشد اور سرپنچ کے انتخاب کے لیے بھی رائے دہی ہوتی رہتی ہے۔ کبھی پارلیمانی انتخابات تو کبھی ضمنی انتخابات کسی نہ کسی شہر یا ریاست میں ہوتے رہتے ہیں۔


اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پورا ہندوستان ایک قوم ، ایک ملک ہے مگر داخلی طور پر ہماری جو کثیر جہتی رنگا رنگ تہذیب ہے اس کو ایک رنگ دینے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہوگا۔ حکمراں بی جے پی اوراس کی نظریاتی تنظیم آرایس ایس کوبھی اس بات کااعتراف کرنا ہوگا کہ ہندوستان رنگ برنگی تہذیبوں سے مل کر گلدستہ بنا ہے۔ اس کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہم سب کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں جمہوریت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت کا سفرآسان نہیں رہا ہے۔ بہت مشکل دور بھی آئے ہیں لیکن جمہوریت پر یقین اور اس کے استحکام نے ملک کو ہر مشکل گھڑی اور مشکل وقت سے آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

یہ ہندوستانی جمہوریت کا اعجاز ہی ہے کہ آج کوئی کمزور سے کمزور اور پسماندہ سے پسماندہ شخص بھی ملک میں اعلی ترین عہدہ کے لیے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کرسکتا ہے اور دلیرانہ طور پر مقابلہ کرنے اور حالات کا سامنا کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کو جمہوریت نے کامیابی بھی عطا کی ہے۔ ہندوستان مختلف ریاستوں جس میں مختلف مذاہب، ذاتوں، برادریوں اور زبانوں کے لوگ رہتے ہیں، کی ایک فیڈریشن ہے لیکن بی جے پی کا ایک ملک ایک انتخاب، ایک قوم ایک کا نظریہ ہے جو ملک کے آئین اور جمہوریت کے منافی ہے باوجود اس کے یہ اندیشے سر ابھارنے لگے ہیں کہ مرکزکی بی جے پی حکومت اس سلسلہ میں قانون سازی کے لیے بھی اقدامات کا آغاز کرسکتی ہے۔


درا صل’ ایک ملک ایک الیکشن‘ کا نعرہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے دیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اقتدار سے دور ہونا نہیں چاہتی ہے اوراسی لیے ہرممکن حربے استعمال کررہی ہے۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اقتدار پر برقرار رہنا چاہئے لیکن انتخابی ضابطہ یا قوانین کو تبدیل کرکے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس ملک میں ہر علاقہ کی صورتحال مختلف ہوتی ہے۔ سبھی ریاستوں کے ایک دوسرے سے تضادات بھی ہوتے ہیں اور یکسانیت بھی ہوتی ہے۔ مرکز کی نگرانی میں ہی ریاستی حکومتیں کام کرتی ہیں۔ تاہم صرف سیاسی مفادات کے لیے انتخابی نظام کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرنا یا منصوبے بنانا درست نہیں ہے۔

ملک کی جمہوریت کے ساتھ کسی طرح کا کھلواڑ نہیں ہونا چاہئے۔ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اقتدار کی لالچ اور ہوس میں ملک کے انتخابی نظام پر ہی اثرا نداز ہونے یا اس میں بنیادی سطح سے تبدیلیاں کرنے کی کوششیں شروع کی جائیں۔ مودی حکومت وقفہ وقفہ سے اپنے ایجنڈہ کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے۔ جب کبھی اسے عوام کی ناراضگی کا سامنا ہوتا ہے اس کے سامنے شکست کے اندیشے ہوتے ہیں تو پھر نیا جھانسہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب جبکہ بی جے پی مرکز میں 10 سال سے اقتدار میں ہے تو عوام میں حکومت مخالف لہرپائی جارہی ہے۔ اسی کو محسوس کرتے ہوئے ’ایک ملک ایک لیکشن‘کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔


جس وقت سے ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کا’ انڈیا‘ اتحاد وجود میں آیا ہے اس وقت سے ہی بی جے پی اور اس کے ہمنوا اداروں اور تنظیموں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بی جے پی اور اس کے رہنماوں کو یہ امید بالکل نہیں تھی کہ ’انڈیا‘ اتحاد اس طرح سے تشکیل پائے گا اور دو درجن سے زائد جماعتیں اس کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوجائیں گی اور یہ سب جماعتیں اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنے کے ایجنڈہ پر کام کرنے کو اولین ترجیح دیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی انڈیا اتحاد اور اس کی طاقت سے خوفزدہ ہے۔ ’انڈیا‘کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود مختلف جماعتیں مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئی ہیں۔

’انڈیا‘ کا بظاہرمقصد 140 کروڑ لوگوں کی نمائندگی کرنی ہے اور اپنے ملک اور جمہوریت کو بچانا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جب ایک ملک ایک الیکشن، ایک مذہب،ایک نظریہ کا نعرہ لگانے والوں کو ہندوستان کی قدرومنزلت کا احساس کرانا ہے اس لئے کہ رواں سال پانچ بڑی ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم میں انتخابات ہیں جہاں بی جے پی اپنی جگہ کھو رہی ہے ۔ پولرائزیشن اور نفرت کی سیاست بھی اب ناکام ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی تمام ریاستوں میں بری طرح ہار رہی ہے ۔ اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی اوران کے تمام سپہ سالارگھبراہٹ کا شکار ہیں اور انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔