اب دہلی کا چڑیا خانہ بھی امبانی کے حصے میں چلا گیا... پنکج چترویدی
دہلی واقع چڑیا خانہ کا افتتاح یکم نومبر 1959 کو مرکزی وزیر پنجاب راؤ دیشمکھ نے کیا۔ اسے ڈیزائن کرنے میں سری لنکا کے میجر وائنمین اور مغربی جرمنی کے کارل ہیگین بیک کا اہم کردار رہا۔

دہلی چڑیا خانہ، تصویر سوشل میڈیا
دہلی کا چڑیا خانہ بھی امبانی کو سونپ دیا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سمجھوتہ کے دستاویزات پر دستخط ہو گئے اور چڑیا خانہ کے ڈائریکٹر کو پتہ ہی نہیں۔ یہ معاہدہ ’گرینس زولوجیکل ریسکیو اینڈ ریہبلیٹیشن سنٹر، جام نگر‘ یعنی امبانی کے بیٹے سے جڑے ونتارا سے ہوا ہے، جو اب دہلی چڑیا خانہ کا انتظام و انصرام دیکھے گا۔ ان کی ایک ٹیم یہاں آ کر سب کچھ سروے بھی کر گئی۔ ماحولیات، جنگلات و فضائی تبدیلی کی وزارت اور وزیر اعظم دفتر کے ذرائع کے مطابق چڑیا خانہ کے مینجمنٹ میں ایک مشہور پرائیویٹ گروپ کو شامل کرنے کے لیے گفت و شنید آخری مراحل میں ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح کی سہولیات اور انفراسٹرکچر تیار کرنا ہے۔ اس منصوبہ میں ایئرکنڈیشنڈ طبی یونٹس، جدید بازآبادکاری مرکز اور جدید ترین پنجرے شامل ہیں۔ حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایم او یو (ریفرنس نمبر جی زیڈ آر آر سی/2025/ایس جی او/42، 28 مئی 2025) کے مطابق جی زیڈ آر ٓر سی کی ٹیم نے دہلی چڑیا خانہ کا معائنہ 31 مئی اور یکم جون کو کیا تھا۔ اس کے بعد آگے کا خاکہ طے ہوگا۔ ٹیم میں ویٹنری ڈاکٹر، کچن منیجر، سائٹ منیجر سمیت 6 لوگ شامل بتائے جا رہے ہیں۔
یاد دلا دیں کہ ونتارا جام نگر (گجرات) میں واقع ایک جدید ترین وائلڈ لائف ریسکیو، بازآبادکاری اور تحفظ مرکز کے نام پر اننت امبانی نے ریلائنس فاؤنڈیشن کے تعاون سے ریلائنس ریفائنری کے گرین بیلٹ علاقہ میں تقریباً 3000 ایکڑ (کچھ ذرائع کے مطابق 3500 ایکڑ) میں پھیلا ہوا ہے۔ ہندوستان میں 1972 کا وائلڈ لائف (پروٹیکشن) ایکٹ نافذ ہے، جو جنگلی جانوروں کے شکار، تجارت، درآمدگی و برآمدگی اور ان کی قدرتی رہائش کی حفاظت کے لیے سخت التزام کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص یا ادارہ کو جنگلی جانوروں کو پکڑنا، رکھنا یا ان کی تجارت کرنا بغیر سرکاری اجازت کے ممنوع ہے۔ مئی 2024 میں وینزوئلا سے 1825 زندہ جانوروں کو ایک پرائیویٹ سمجھوتے کے تحت ہندوستان لایا گیا، جن میں جیگوار، ٹاپیر، مگرمچھ، بندر وغیرہ شامل تھے۔ یہ معاہدہ مبینہ طور پر ’تحفظ‘ کے نام پر ہوا، لیکن اس میں شفافیت کی کمی اور سرکاری نگرانی کو نظر انداز کیے جانے کے الزام لگے ہیں۔ ہندوستان میں چڑیا خانہ یا ریسکیو سنٹر کھولنے کے لیے سنٹر زو اتھارٹی (سی زیڈ اے) کی اجازت ضروری ہوتی ہے، لیکن ونتارا کے عمل میں کئی اصولوں کو نظر انداز کیے جانے کی بات سامنے آئی۔ ایسے مشتبہ ادارہ کو دہلی کے مشہور چڑیا خانہ کی ذمہ داری سونپنا ایک کمرشیل فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔
دہلی میں چڑیا خانہ کا تصور ملک کی آزادی کے بعد ہی 1953 میں کیا گیا اور یکم نومبر 1959 کو مرکزی وزیر پنجاب راؤ دیشمکھ نے اس کا افتتاح کیا۔ دہلی میں پرانا قلعہ کے پاس دلدلی زمین پر اسے ڈیزائن کرنے میں سری لنکا کے میجر وائنمین اور مغربی جرمنی کے کارل ہیگین بیک کا اہم کردار رہا۔ آج یہ کوئی 176 ایکڑ میں پھیلا ہے اور 1200 سے زیادہ جانور کی نسلیں یہاں ہیں۔ ملک کی اتنی بیش قیمتی ملکیت کو براہ راست پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنا شرمناک اور خطرناک ہے۔ ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کے نظریہ سے یہ خطرناک قدم ہے۔ ادارہ کی نجکاری کے سبب خدمات کے شرائط و ناظرین پر بوجھ بڑھنا تو طے ہے ہی۔ وائلڈ لائف پروٹیکشن کے نام پر پرائیویٹ ادارے اکثر سیاحت، ایونٹس اور برانڈنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے جانوروں کی بھلائی کی جگہ کمرشیل مفاد حاوی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ونتارا کے ضمن میں کئی الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں۔ سمجھ لیں کہ اب دہلی کا چڑیا خانہ بھی ونتارا کی طرح وی آئی پی ایونٹس، سیلبرٹی وزٹس اور خصوصی دعوتوں کا اڈہ بن جائے گا۔ اس سے عام لوگ کی رسائی محدود ہو سکتی ہے اور چڑیا خانہ ’پرائیویٹ کلب‘ جیسا بن سکتا ہے، جو عوامی خدمت کے برعکس ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔