مولانا آزاد فیلوشپ نہیں، بلکہ اقلیتوں کی ترقی پر روک لگائی گئی!

مرکزی حکومت نے اقلیتوں کو دی جانے والی فیلوشپ ’ایم اے این ایف‘ کو بند کر دیا ہے۔ اسی طرح پہلی سے آٹھویں جماعت تک کی اسکالر شپ بھی بند کر دی۔ ان دونوں فیصلوں کا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑے گا

<div class="paragraphs"><p> علامتی تصویر / Getty Images</p></div>

علامتی تصویر / Getty Images

user

قومی آوازبیورو

فرقان قمر اور اینی کناتھ

مرکزی وزارت اقلیتی امور کی طرف سے شروع کی گئی اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ذریعے چلائی جا رہی مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ (ایم اے این ایف) کو حکومت نے حال ہی میں بند کر دیا، اس فیصلہ نے مذہبی اقلیتوں کو مایوس کر دیا ہے۔

یہ فیلو شپ 2009 میں شروع ہوئی تھی اور 6 مذہبی اقلیتی برادریوں - بدھ مت، عیسائی، جین، پارسی، اسلام اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے واولے طلباء کو ایم فل/پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کر رہی تھی۔ پچھلے 8 سالوں کے دوران اس اسکیم پر حکومت کو تقریباً 738.85 کروڑ روپے خرچ کئے اور اس سے 6722 اقلیتی طلبا کی مدد ہوئی۔ 2017-18 میں اس اسکیم کے لیے مختص رقم 150 کروڑ تھی جو 2021-22 میں گھٹ کر 99 کروڑ رہ گئی۔ کچھ لوگ پہلے ہی اس طرح کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ اس اسکیم کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اقلیتی برادریوں کے تقریباً ایک ہزار طلبا سالانہ فیلوشپ سے محروم رہیں گے لیکن اس تعداد سے زیادہ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ فیلو شپ پسماندہ اقلیتوں کے ہونہار بچوں کو انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی، ہیومینٹیز، نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز میں میں تحقیق کرنے کے قابل بناتی تھی۔

اس فیلوشپ کو بظاہر اس بنیاد پر بند کیا گیا ہے کہ یہ دوسری اسی طرح کی اسکیموں کے ساتھ اوور لیپ ہو رہی تھی لیکن یہ دلیل منطقی نظر نہیں آتی۔ مثال کے طور پر، یو جی سی اور سی ایس آئی آر جونیئر ریسرچ فیلوشپ (جے آر ایف) تمام اسٹریمز کے بالترتیب 6,400 اور 2,200 طلبا کو فراہم کی جاتی ہے، جبکہ بنیادی سائنس ریسرچ (بی ایس آر) فیلوشپ صرف سب سے زیادہ ہونہار طلبا کو بنیادی سائنس میں تحقیق کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ سوامی وویکانند فیلوشپ (ایس وی ایف) 300 لڑکیوں کو دی جاتی ہے، جو خاندان کی اکلوتی لڑکیاں ہوں جو سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ اگرچہ مذہبی اقلیتوں کے طلبا کو ان سے روکا نہیں گیا ہے لیکن انہیں ان کمیونٹیز کی پسماندگی اور محرومی پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا ہے۔


اگر مولانا آزاد فیلوشپ مذہبی اقلیتی طلبہ کے لیے ان دیگر اسکالرشپس کے ساتھ اوورلیپ ہو رہی ہے، تو درج فہرست ذاتوں کے لیے قومی فیلوشپ (2000 طلبا کے لیے)، درج فہرست قبائل (750 طلبا کے لیے) اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے لیے (1000 طلبا کے لیے) کو جاری رکھنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ خاص طور پر اس وقت جب مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ 1,000 طلبا کے لئے صرف ایک ہی ہے جو خاص طور پر مذہبی اقلیتوں کے طلبا کے لئے تیار کی گئی ہے؟ اسے بند کرنے سے ان طلبا کو ان فوائد سے محروم کیا جا رہا ہے جو سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد انہیں اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں مدد دینے کے لیے دئے جا رہے تھے۔ یہی نہیں کسی بھی دوہراؤ کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ کسی بھی ریسرچ اسکالر کو ایک سے زیادہ فیلوشپ حاصل کرنے کا حق نہیں ہے۔

ریسرچ فیلوشپ کے لیے سخت مقابلہ ہے اور صرف مٹھی بھر ہی اسے حاصل کر پاتےت ہیں۔ یو جی سی، سی ایس آئی آر جے آر ایف کے امتحان میں شرکت کرنے والے بمشکل دو فیصد لوگ اس کو کوالیفائی کر پاتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ برا اثر محروم اور پسماندہ طبقوں کے بچوں پر پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں ایسے لوگوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کی ضرورت محسوس کی گئی۔

مرکزی حکومت کا ایک اور فیصلہ بھی اتنا ہی مایوس کن ہے۔ یہ کلاس اول سے کلاس آٹھ تک کے طلبا کے لیے دی جانے والی پری میٹرک اسکالرشپ کو ختم کرنا اور اسے صرف کلاس 9 اور 10 تک محدود کرنا ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف اقلیتی طبقہ بلکہ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات پر بھی برا اثر پڑے گا۔


حکومت کا یہ استدلال کہ آٹھویں جماعت تک تعلیم، حق تعلیم قانون (آر ٹی ای) کے تحت مفت ہے، اس لیے اسکالر شپ کو بند کرنا پڑا اور اس پر شور و غوغا اتنا ہی کمزور ہے جتنا کہ ایم این ایف کو ختم کرنے کی مخالفت۔ اقلیتوں کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کا آغاز 2006 میں وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام برائے اقلیتوں کی بہبود اور ترقی کے تحت کیا گیا تھا۔

میرٹ کو انعام دینے اور تعلیم کی براہ راست لاگت کو کم کرنے کے علاوہ اسکالرشپ کا ایک اور مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے اس وقت کی تلافی کرنا جو ایک طالب علم کام سے باہر تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرتا ہے۔ اس سے غریبوں کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر راضی کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ ایک آزاد ایجنسی کے ذریعہ پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کا 2017 کا مطالعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسکیم اپنے مقاصد کو بڑی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

قومی تعلیمی پالیسی ( این ای پی 2020) کو لے کر اقلیتوں میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ عیسائی گروپ اس بات پر ناراض ہیں کہ این ای پی نے جدید تعلیم میں مشنری اداروں کے کردار کو نظر انداز کر دیا، جبکہ وہ ملک میں جدید تعلیم کو مرکزی دھارے میں لانے کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی فضیلت کے لیے مشہور ہیں اور معیاری تعلیم کے خواہاں افراد کے لیے پہلی پسند کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اور مسلمان یہ سمجھ پانے سے قاصر ہیں کہ این ای پی میں اردو کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ وہ این ای پی سے 'مدارس' کو غائب دیکھ کر مایوس ہوئے ہیں کیونکہ وہ مدارس کو اپنی زبان، ثقافت اور روایات کے تحفظ کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔ مسلمان این ای پی میں اردو کی عدم موجودگی کو دھوکہ دہی قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ پالیسی اس وقت آئی تھی جب وزیر اعظم نے ملک کو 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا پریاس‘ کی سمت میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔ وہ اب اس بات پر مایوس ہیں کہ پالیسی کے اعلان کے دو سال کے اندر انہیں جو معمولی فوائد مل رہے تھے وہ بھی چھینے جا رہے ہیں!

...

(فرقان قمر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر اور پلاننگ کمیشن میں سابق مشیر برائے تعلیم ہیں۔ جبکہ اینی کناتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں درس دو تدریس کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔