راشٹرویر، بھکتی ویر اور ٹی آر پی ویر...ابھے شکلا

یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ’نئے بھارت‘ میں ایک برادری کے لئے کوئی جگہ نہیں اور اسی کو مرکز میں رکھ کر طرح طرح کے ’ویر‘ پیدا کئے جا رہے ہیں۔ تاہم سماج میں اس پر شدید ردعمل بھی نظر آ رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سنڈے نوجیون </p></div>

تصویر بشکریہ سنڈے نوجیون

user

ابھے شکلا

یوم جمہوریہ کی تقریبات میں ایک مطلق العنان آمر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنے کی ستم ظریفی کو درکنار کر دیا جائے تو گزشتہ ایک ماہ سے بی جے پی یا اس کے 'بھکت ویروں' کے لئے بہتر نہیں رہا۔

لوگوں کو یہ امید رہیی ہوگی کہ وزارت خارجہ کے دانشمند افراد وزیر اعظم کو مشورہ دیں گے کہ جس شخص نے اپنے ہی ملک کے آئین کو توڑا ہے اسے دوسرے ملک کے آئین کی منظوری کی تقریب میں پلکوں پر بیٹھنا درست نہیں ہوگا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری نئی ڈپلومیسی سے ایسی توقعات بے معنی ہیں۔

تاہم، اس سے بھی زیادہ اہم، بی بی سی کی دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم 'دی مودی کویشن' پر حکام کا چڑھ دوڑنا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے عجلت میں زعفرانی لباس پہن لیا اور دستاویزی فلم دیکھنے کی پرواہ کیے بغیر میڈیا سے کہا کہ یہ ہندوستان کے خلاف سازش ہے اور استعماری ذہنیت کی نشاندہی کرتی ہے۔

اسے میں عام طور پر ایک سست 'آگمنٹن' ردعمل کہتا ہوں۔ اگمنٹن ایک 'براڈ اسپیکٹرم اینٹی بائیوٹک' ہے اور جب ڈاکٹر انفیکشن کی وجہ کی نشاندہی نہیں کر پاتا تو وہ اس امید پر ایک وسیع اسپیکٹرم اینٹی بائیوٹک تجویز کرتا ہے کہ یہ اس وائرس کے انفیکشن کے لیے بھی کام کرے گی۔ یہ ایک کلسٹر بم کی طرح ہے اور وزارت خارجہ کا رویہ بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹوئٹر پر موجود لوگ بھی تسلیم کریں گے کہ بی بی سی ہمارے سرکاری ترجمانوں، کنگنا رناوت یا امت مالویہ سے کہیں زیادہ قابل اعتبار ہے۔ بی بی سی کو برطانوی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے اور یہ برطانوی عوام کو جوابدہ ہے، حکومت کے تئیں نہیں۔ برطانوی حکومت اس رقم کو بی بی سی تک پہنچانے کے لیے صرف ایک چینل ہے۔ تاہم، یہاں کے بیشتر 'راشٹرویر' اس باریک فرق کو نہیں سمجھ پائیں گے۔


چند سال پہلے، بی بی سی نے 1940 کے بنگال کے قحط پر ایک دستاویزی فلم جاری کی تھی، جس میں چرچل اور اس وقت کی نوآبادیاتی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ جب بورس جانسن وزیر اعظم تھے تو بی بی سی نے انہیں بھی نہیں بخشا اور ان کی پارٹیوں میں شرارت پر باقاعدگی سے رپورٹنگ کی۔ اس لیے وہ ہمارے 'ٹی آر پی ویر' ٹی وی اینکرز کے مقابلہ تو بہتر ہے جو اپنا ضمیر سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کو بیچتے ہیں اور ہمیں یہ لیکچر دیتے ہیں کہ بی بی سی بک گئی ہے اور اس کی کوئی اعتبار نہیں ہے۔

ایک زمانہ پہلے صحافی رہ چکے سوپن داس گپتا وزیر اعظم کے میڈیا ایڈوائزر ہیں اور انہیں بی بی سی کی دستاویزی فلم میں ضرورت سے زیادہ وقت دیا گیا ہے۔ جب حکومت نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اس دستاویزی فلم پر پابندی لگائی تو سب سے پہلے سوپن داس گپتا کو باہر کا راستہ دکھایا جانا چاہیے تھا۔ اگر مسٹر داس گپتا نے اپنا سارا وقت ناقابل محفوظ کو بچانے میں صرف نہ کیا ہوتا تو شاید وہ 'اسٹریسینڈ ایفیکٹ' دریافت کر لیتے۔ یہ سنہ 2003 کی بات ہے۔ کیلیفورنیا کوسٹل پروجیکٹ کی طرف سے اپ لوڈ کی گئی رپورٹ میں ایک ساحل کی تصویر بھی شامل تھی، جس میں اداکارہ باربرا اسٹریسینڈ کی مالیبو حویلی بھی نظر آ رہی تھی۔ اداکارہ نے اسے رازداری کی خلاف ورزی قرار دیا اور 50 ملین ڈالر کا دعویٰ دائر کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ جہاں پہلے اس تصویر کے صرف چھ ڈاؤن لوڈ تھے، وہیں باربرا کے ایکشن کے چند مہینوں میں اسے 420000 مرتبہ ڈاؤن لوڈ کر لیا گیا۔

معلومات کو دبانے یا چھپانے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اس پر اتنی ہی زیادہ توجہ مبذول ہوگی۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے 'بھکت ویروں' کو کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایسا ہی کچھ فلم 'پٹھان' کے ساتھ ہوا۔ یہ بات کچھ عرصے سے واضح ہو رہی ہے کہ دائیں بازو کے لوگ شاہ رخ خان کے سخت مخالف ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کا جواب صرف انہی کے پاس ہوگا کیونکہ شاہ رخ نے عوامی طور پر خود کو ایک بہتر انسان کے طور پر پیش کیا ہے، جو سیاست سے دور رہتا ہے اور کسی پر تنقید نہیں کرتا۔ میرے خیال میں یہی کچھ لوگوں کو ناراض کرتا ہے۔ شاہ رخ اس 'دشمن' کی تصویر نہیں جسے یہ شرپسند نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن وہ ہندوستان کے سب سے بڑے سپر اسٹار ہیں اور اس لیے انہیں گھسیٹ کر نیچے لانا چاہتے ہیں، غالباً ان کی برادری کے لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ انہیں اس 'نئے راشٹر' میں کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔


بین الاقوامی سطح پر راج کپور سے لے کر اے آر رحمان تک، بالی ووڈ ہندوستان کی ’سافٹ پاور‘ کا ایک اہم چہرہ رہا ہے۔ بالی ووڈ جو چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے وہ ایک ایسا شخص ہے جو ملک کے پھلتے پھولتے کثیر مذہبی، کثیر الجہتی ثقافتی تنوع کی نمائندگی کرتا ہے، خواہ وہ مصنف، نغمہ نگار، موسیقار، گلوکار، ہدایت کار ہوں یا پھر ہیرو ہیروئن۔ لیکن یہ موجودہ حکومت اور اس کے حامیوں کو قابل قبول نہیں۔ وہ پوری شدت سے چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو صرف ایک مذہبی اور ثقافتی پرزم سے دیکھا جائے۔ چونکہ شاہ رخ خان اس بالی ووڈ کا چہرہ ہیں، اس لیے انہیں وویک اگنی ہوتری اور اکشے کمار کے برابر لانا ہوگا۔

پچھلے سال، شاہ رخ کے بیٹے کو منشیات کے جھوٹے مقدمے میں نشانہ بنایا گیا تھا لیکن یہ کیس حکومت پر ہی تھپڑ کی طرح پڑا تھا۔ اس لیے پانچ سال بعد آنے والی ان کی فلم 'پٹھان' کو کسی بھی حالت میں کامیاب نہیں ہونے دینا تھا۔ جس کی وجہ سے تنازع کھڑا کیا گیا۔ ٹی وی پر بحث کرائی گئی کہ رائے عامہ ان کے خلاف ہو جائے۔ سوشل میڈیا پر 'بائیکاٹ پٹھان' مہم چلائی گئی۔ حتیٰ کہ اقتدار سے وابستہ چھوٹے چھوٹے وزیر بھی دھمکیاں دینے میں آگے تھے۔ لیکن ایک بار پھر 'سٹریسینڈ ایفیکٹ' کا طہور ہو گیا اور نتیجہ یہ ہے کہ شاہ رخ کی فلم 'پٹھان' ہندوستانی 'ٹائی ٹینک' یا 'اوتار' بننے کی جانب گامزن ہے۔

کیا قوم پرستی کا مہلک وائرس کووڈ کی طرح کمزور ہو رہا ہے یا ہم اپنے اندر اس کے تئیں قوت مدافعت پیدا کر رہے ہیں؟ یہ تو وقت بتائے گا لیکن حالیہ پیش رفت امید افزا ہیں۔

جب میں یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں تو ہنڈن برگ کی رپورٹ کی وجہ سے اڈانی گروپ کے اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو ہمارے ٹی وی اینکرز کی اخلاقی قدروں سے زیادہ تیزی سے گر گئی ہے۔ یہ کہانی ابھی شکل اختیار کر رہی ہے اور ہمیشہ کی طرح رپورٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے 'سازش' اور 'انٹی انڈیا' کارڈ کھیل دئے گئے ہیں۔ حال ہی میں اڈانی انٹرپرائزز کے سی ایف او نے ایک ٹی وی خطاب کے دوران خود کو قومی پرچم میں لپیٹ لیا اور اپنے حصص کے 'قتل عام' کا موازنہ جلیانوالہ باغ کے قتل عام سے کر دیا!


سوال یہ نہیں ہے کہ پہلے کون پلک جھپکائے گا (اڈانی اپنا ایف پی او منسوخ کر کے پہلے ہی پلکیں جھپکا چکے ہیں)، اصل سوال یہ ہے کہ پہلے کون بولے گا؟ میں جانتا ہوں کہ اس رپورٹ میں یا بی بی سی کی دستاویزی فلم میں جو حقائق پیش کیے گئے ہیں وہ غلط ہو سکتے ہیں (اگرچہ میرے خیال میں وہ نہیں ہیں) لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس عظیم قوم کی برابری ان دو لوگوں سے بالکل بھی نہیں کی جا سکتا۔

'امرت کال' یا ہماری جی-20 کی صدارت کے لیے کوئی بہت اچھی شروعات نہیں ہے۔

(مصنف ابھے شکلا ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔