’نہیں میں تم کو اس برس دسہرہ کا جشن منانے نہیں لے جاؤں گا‘

دسہرا بقول جواہر لال آریوں کی دراوڑوں پر فتح کا جشن ہے لیکن اس سال مودی حکومت اس فتح کو نیا رنگ دے کر ایسا جشن منانے جا رہی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں کوئی تہوار اس جوش و خروش سے نہیں منایا گیا

<div class="paragraphs"><p>ایودھیا میں وزیر اعظم مودی / Getty Images</p></div>

ایودھیا میں وزیر اعظم مودی / Getty Images

user

ظفر آغا

یہ ذکر ہے جنگ آزادی کے دور کا۔ جواہر لال نہرو ولایت سے وکالت کی ڈگری حاصل کر واپس وطن الٰہ آباد آ چکے تھے اور واپس آتے ہی اپنے والد موتی لال نہرو کی طرف ملک کی تحریک آزادی میں پوری شد و مد سے کود پڑے تھے۔ نہرو خاندان کا یہ معمول بن چکا تھا کہ کبھی باپ تو کبھی بیٹا جیل میں بند رہتا۔ کچھ ایسا ہی وقت تھا جب جواہر لال نہرو جیل میں تھے۔ اسی دوران دسہرہ کا تہوار پڑا۔ الٰہ آباد کا یہ معمول تھا کہ دسہرے کی دس تاریخ کو لگ بھگ سارا شہر رام چندر جی کے درشن کو سڑکوں پر نکل پڑتا تھا۔ کیا ہندو، کیا مسلما، کیا سکھ اور کیا عیسائی... سب کے لیے رام چندر جی کا دَرشن کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ جواہر لال نہرو بھی چھوٹی سی بیٹی اندرا گاندھی کو خود لے جا کر دسویں کو رام چندر جی کا درشن کرواتے تھے۔ اس سال کچھ یوں ہوا کہ دسہرے کے تہوار کے دوران جواہر لال جیل میں تھے۔ ظاہر تھا کہ وہ تو اپنی بیٹی اندرا (جس کو وہ پیار سے اندو پکارتے تھے) کو دسہرے کے جلوس میں نہیں لے جا سکتے تھے۔ بس اس خیال سے کہ وہ دسہرے میں اپنی ’اندو‘ کو رام چندر جی کا دَرشن کروانے نہیں لے جا سکیں گے، ان کا دل مسوس اٹھا۔ اس خلش سے مجبور ہو کر انھوں نے اندرا گاندھی کو ایک خط لکھا۔ اس خط کا پہلا جملہ تھا ’’ڈیئر اندو، آئی وِل ناٹ بی ایبل ٹو ٹیک یو آؤٹ فار دسہرا دِس ایئر‘‘ (پیاری اندو، میں اس سال تم کو دسہرے میں باہر نہیں لے جا سکوں گا)۔

جواہر لال نے اس موقع کا استعمال کچھ اس طرح کیا کہ وہ ’اندو‘ کو یہ بھی سمجھا دیں کہ آخر ہم ہندوستانی دسہرے کا تہوار اس قدر زور و شور سے کیوں مناتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اس مکتوب میں بہت کم الفاظ میں اندرا سے یہ سوال کیا کہ ’کیا تم جانتی ہو کہ ہم دسہرے کا جشن کیوں مناتے ہیں!‘ اس سوال کا انھوں نے چھوٹا سا جواب بھی خود ہی لکھ ڈالا۔ اس کا لب و لباب کچھ یوں تھا: دراصل دسہرا آریائی نسل کے لوگوں کی ہندوستان کے پرانے باشندے دراوڑوں پر فتح کا جشن ہے۔ اب ہم ہندوستانی آرین کی اس فتح کا جشن پورے زور و شور سے مناتے ہیں۔ زیادہ تر تاریخ داں بھی یہی مانتے ہیں کہ آریائی لوگ باہر سے ہندوستان آئے۔ ان سے قبل اس ملک پر دراوڑوں کا راج پاٹھ تھا۔ دونوں کے درمیان گھمسان کا جنگ ہوا۔ آخر گوری نسل کے آریوں نے کالی نسل کے دراوڑوں کو ہرا کر یہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔ آریائی سفید نسل کے لوگ تھے، جبکہ دراوڑ کالے تھے۔ بقول جواہر لال یہی سبب ہے کہ دسہرے میں رام کا رول کرنے والا گورا ہوتا ہے، جبکہ دراوڑوں کا بادشاہ راوَن کالے رنگ کا ہوتا ہے۔


الغرض دسہرا بقول جواہر لال آریوں کی دراوڑوں پر فتح کا جشن ہے۔ لیکن اس سال مودی حکومت اس فتح کو ایک نیا رنگ دے کر ایسا جشن منانے جا رہی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں کوئی بھی تہوار کبھی بھی اس جوش و خروش سے نہیں منایا گیا۔ اس جشن کی قیادت اس سال وزیر اعظم نریندر مودی بہ نفس نفیس خود فرمائیں گے۔ لیکن اس برس یہ جشن آریوں کی دراوڑوں پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر فتح کا جشن ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جشن 6 دسمبر 1992 سے شروع ہو چکا ہے۔ اس روز ایودھیا میں بابری مسجد مسمار کر دی گئی تھی اور اس کی جگہ ایک چھوٹا سا رام مندر تعمیر کر دیا گیا تھا۔ تب سے وہاں ’رام للا‘ کی پوجا چل رہی تھی۔ قاری واقف ہوں گے کہ بابری مسجد اور رام مندر کی تکرار سے اس ملک میں ہندو-مسلم منافرت کی ایک دیوار کھڑی ہو گئی تھی۔ مسجد گرتے ہی بی جے پی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس جگہ پر ایک ایسا شاندار مندر بنوائے گی کہ جس کا تصور کوئی کر بھی نہیں سکے گا۔ اس برس 22 جنوری کو وہ مندر بن کر تعمیر ہو جائے گا۔ وزیر اعظم اسی روز ایودھیا پہنچ کر اس عظیم الشان مندر کا افتتاح کریں گے جس کے بعد سے بھگوان رام کے متوالے رام جی کا دَرشن کرتے رہیں گے۔ اب ایودھیا میں نہ صرف ایک عظیم الشان مندر ہوگا، بلکہ پورا شہر ایودھیا ایک ایسی اسمارٹ سٹی میں تبدیل ہو جائے گی جس کا تصور کوئی پہلے نہیں کر سکتا تھا۔ کہتے ہیں دراوڑوں کے راجہ راوَن کی لنکا نگری سونے کی نگری تھی، لیکن نئی رام نگری اس سے بھی بڑھ چڑھ کر ہوگی۔ تبھی تو 30 دسمبر کو وزیر اعظم ایودھیا ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح کرنے گئے، جہاں انھوں نے یہ اعلان کیا کہ اگلے دس سالوں میں مرکزی حکومت اس شہر کی ترقی کے لیے لاکھوں کروڑ روپے خرچ کرے گی۔

اس جشن کو دیکھنے دنیا بھر سے یاتری آئیں گے۔ لیکن اگر میرے بیٹے نے مجھ سے یہ فرمائش کی کہ میں اس کو ایودھیا لے جا کر دسہرے کا جشن دکھاؤں، تو میرا جواب ہوگا: ’نو مائی سن، آئی وِل ناٹ بی ایبل ٹو ٹیک یو ٹو ایودھیا ٹو واچ دسہرہ‘ (نہیں بیٹا، میں تم کو ایودھیا دسہرے کا جشن دکھانے نہیں لے جاؤں گا)۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔