این سی ای آر ٹی تنازعہ: تاریخ کے خول میں پروپیگنڈے کا چور... حسنین نقوی

این سی ای آر ٹی کی طرف سے اس ماہ جاری کردہ ’تقسیم کی بھیانک یاد‘ پر خصوصی ماڈیول محض ان کے تخیل پر مبنی تاریخ ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
i
user

حسنین نقوی

1947 میں برصغیر کی تقسیم جنوبی ایشیائی تاریخ کے سب سے ہولناک تقسیم میں سے ایک تھی۔ اس میں ایک سے دو کروڑ تک لوگ بے گھر ہوئے، 2 سے 20 لاکھ تک افراد مارے گئے۔ یہ تقسیم ایسے زخم چھوڑ گئی جو آج بھی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کو چبھتے ہیں۔ ہندوستان نے 2021 سے ہر 14 اگست کو سرکاری طور پر ’تقسیم کی بھیانک یاد کا دن‘ کے طور پر منانا شروع کیا ہے۔ رواں سال 13 اگست کو این سی ای آر ٹی (قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق) نے جماعت ششم تا ہشتم اور جماعت نہم تا دوازدہم کے لیے ایک ہی عنوان (تقسیم کی بھیانک یاد کا دن) کے تحت 2 ضمنی ماڈیول جاری کیے۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ آنے والی نسلیں تقسیم کی ہولناکی کو نہ صرف یاد رکھیں بلکہ اس سے درست سبق بھی سیکھیں۔ ’درمیانی مرحلہ‘ کے لیے جاری اس خصوصی ماڈیول میں کہا گیا ہے کہ ’’تاریخ کی ناواقفیت مشکل مسائل کو جوں کا توں باقی رکھتی ہے۔ نتیجتاً نئی نسل ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے تاریخ جاننا نہایت ضروری ہے۔‘‘ ظاہر ہے اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے!

لیکن یہ ماڈیول اس پورے معاملے کو محض 3 کرداروں تک محدود کر دیتا ہے- محمد علی جناح، انڈین نیشنل کانگریس اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن۔ جبکہ ہندو مہا سبھا اور وی ڈی ساورکر جیسے افراد کو بالکل بری کر دیتا ہے، حالانکہ فرقہ وارانہ تقسیم کو نظریاتی بنیاد دینے اور اسے گہرا کرنے میں ان کا کردار کلیدی رہا۔ یہ ماڈیول طلبا کو اس جال میں پھنسا دیتے ہیں جس کے بارے میں کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، پہلے المیے کی صورت میں، پھر تمسخر کی شکل میں۔‘‘ تقسیم کی تاریخ کو ایک ’اخلاقی سبق‘ کی کہانی میں بدلنے کی کوشش میں، این سی ای آر ٹی اس المیہ کو ایک سیاسی تمسخر میں بدلنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔‘‘


ذمہ دار مثلث:

نام نہاد ’خصوصی ماڈیول‘ سے اقتباس: ’’ہندوستان کی تقسیم کے لیے 3 عناصر ذمہ دار تھے: اس کا مطالبہ کرنے والے جناح، اسے ماننے والی کانگریس اور اسے نافذ کرنے والے ماؤنٹ بیٹن۔‘‘

بلاشبہ جناح کا ’ہندو-مسلم اتحاد کے سفیر‘ سے ’بانیٔ پاکستان‘ بننے تک کا سفر فیصلہ کن تھا۔ 1940 کے لاہور قرارداد میں ’دو قومی نظریہ‘ پیش کیا گیا، جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک قوم ماننا ناممکن قرار دیا گیا۔ بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تصادم اور برطانوی ہٹ دھرمی کے دباؤ میں، کانگریس نے آخرکار خانہ جنگی سے بچنے کے عملی طریقے کے طور پر تقسیم کو قبول کیا۔ اپنی کتاب ’انڈیا وِنز فریڈم‘ میں مولانا آزاد نے اسے حمایت کے بجائے ’افسوسناک سمجھوتہ‘ کہا۔

ماؤنٹ بیٹن کی عجلت پسندی، یعنی آزادی کی تاریخ کو اگست 1947 تک کھسکا دینا اور سرحدی تعین کے لیے ایسے شخص سرل ریڈکلف کو نامزد کرنا جو ہندوستان سے بالکل ناآشنا تھا، افراتفری اور قتلِ عام کو بڑھانے والا ثابت ہوا۔ لہٰذا اس مثلث کو ’تقسیم کا مجرم‘ قرار دینا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نہ صرف صدیوں پرانی نوآبادیاتی ’بانٹو اور راج کرو‘ کی پالیسیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے بلکہ ہندو اکثریت پسندی کے نظریاتی ڈھانچے اور سماجی، سیاسی و اقتصادی عوامل کے باہمی تعلق کو بھی انتہائی سادہ بنا دیتا ہے۔


غائب تاریخ

ان نئے ماڈیولز میں سب سے بڑی کوتاہی وی ڈی ساورکر اور ہندو مہاسبھا کا ذکر نہ کرنا ہے۔ جناح سے بہت پہلے ساورکر نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ قومیں قرار دیا تھا۔ 1923 کی اپنی کتاب ’ہندوتوا: ہندو کون ہے؟‘ میں اس نے دلیل دی کہ ہندوستان بنیادی طور پر ایک ہندو راشٹر ہے، جہاں مسلمان اور عیسائی ’غیر ملکی‘ ہیں اور انہیں ہندو بالادستی کو ماننا ہوگا۔

1937 میں ہندو مہاسبھا کے صدر کی حیثیت سے ساورکر نے احمد آباد میں اعلان کیا کہ ’’آج ہندوستان کو ایک یکساں قوم نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہاں بنیادی طور پر 2 قومیں ہیں، ہندو اور مسلمان۔‘‘ یہ بات جناح کے لاہور قرارداد سے 3 سال پہلے کی ہے۔ اتنا ہی نہیں، مہاسبھا کی سیاسی ترقی ان دعووں کے برعکس ہے کہ وہ تقسیم کی مخالف تھی۔ اس نے بنگال، سندھ اور شمال مغربی سرحدی علاقہ میں مسلم لیگ کے ساتھ ایسے وقت میں اتحادی حکومتیں بنائیں، جب مسلم لیگ پاکستان کے لیے دباؤ بنا رہی تھی۔ بعد میں جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی بھی لیگ کے زیر قیادت بنگال کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ اقتدار کے لیے اصولوں کی تجارت کی گئی اور این سی ای آر ٹی کا اس تاریخ کو نظر انداز کرنا محض دانستہ تحریف ہے۔

اس طرح یہ ماڈیولز ہندو فرقہ پرستی کو کلی طور پر بری کرتے ہوئے تقسیم کو صرف مسلم لیگ کی سازش قرار دیتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو اس طرح کے جانبدار ’علم‘ کی ضرورت نہیں ہے۔


آر ایس ایس کا کردار

این سی ای آر ٹی نے مہا سبھا کے نظریاتی رفیق، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ذکر بھی گول کر دیا۔ مشہور ہے کہ آزادی کی جدوجہد کے دوران ایم ایس گولوالکر کی قیادت میں آر ایس ایس نے عوامی تحریکوں، بشمول 1942 کی ’بھارت چھوڑو‘ تحریک سے خود کو الگ رکھا۔ اس نے نوآبادیاتی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے برطانوی پابندیوں کے تحت اپنی عسکری شاخ بھی ختم کر دی۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آر ایس ایس نے 2002 تک اپنے ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم تک نہیں لہرایا تھا۔ ایسے میں اس کے جانشینوں کا آج قومی اتحاد کا محافظ بننے کا دعویٰ مضحکہ خیز لگتا ہے۔ تقسیم کی ہنگامہ خیزی کے دوران اس کی خاموشی اور لاتعلقی کا ذکر کیے بغیر کوئی بھی سچا تعلیمی بیانیہ مکمل نہیں ہوگا۔

نوآبادیاتی مایوسی اور انتظامی عجلت

تقسیم کی کہانی کا ایک اور اہم پہلو، جسے این سی ای آر ٹی چھپاتا ہے، وہ ہے برطانوی نوآبادیات کا کردار۔ 1905 کی بنگال تقسیم سے لے کر 1909 کے مارلے منٹو اصلاحات میں جداگانہ انتخابی نظام تک اور 1932 کے ’کمیونل ایوارڈ‘ تک، برطانوی پالیسیوں نے علیحدگی پسندی کو تقویت دی اور معتدل قیادت کو پس منظر میں دھکیل دیا۔


1946 تک، جب کیبنٹ مشن پلان نے اتحاد بچانے کا آخری فارمولا پیش کیا، بدگمانی اور تھکن غالب آچکی تھی۔ جناح نے گروپ بندی کے التزامات کو مسترد کر دیا۔ اب کانگریس کو ڈر تھا کہ ہندو اکثریتی صوبے اپنی خودمختاری کھو بیٹھیں گے۔ دوسری جنگِ عظیم سے نڈھال برطانیہ نے جلد از جلد یہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں جون 1948 کے بجائے اگست 1947 میں ہی اقتدار کی منتقلی کی گئی۔ اس وجہ سے بڑے پیمانہ پر ہجرت اور نسل کشی دیکھنے کو ملی۔ ریڈ کلف پنچاٹ، جو آزادی کے 2 دن بعد تک خفیہ رکھا گیا، نے پنجاب اور بنگال کو عجلت میں اور منمانے طریقے سے تقسیم کر دیا، جس سے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور ہجرت ہوئی۔ بعدازاں ماؤنٹ بیٹن پر الزام ڈال دینا، جیسا کہ این سی ای آر ٹی کرتا ہے، دراصل دہائیوں پرانی برطانوی سازشی پالیسی کو ہلکا کر کے دکھانے کے مترادف ہے۔

کانگریس کی مجبوری

این سی ای آر ٹی کانگریس کو تقسیم ’قبول کرنے‘ پر موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ لیکن اسے بھی باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کے رہنما، خاص طور پر گاندھی اور آزاد آخر تک تقسیم کے خلاف تھے۔ گاندھی نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اتحاد قائم رکھنے کے لیے حکومت کی قیادت جناح کے سپرد کر دی جائے۔ لیکن آخرکار نہرو اور پٹیل نے لامتناہی خونریزی روکنے کے واحد راستے کے طور پر تقسیم کو قبول کر لیا۔ آزاد نے کانگریس کی عجلت پر افسوس ظاہر کیا، جبکہ امبیڈکر نے اپنی کتاب ’پاکستان یا ہندوستان کی تقسیم‘ میں کہا کہ فرقہ وارانہ جمود کے پیشِ نظر تقسیم ناگزیر تھی۔ رام منوہر لوہیا نے تقسیم ہند کے مجرم میں تمام اشرافیہ یعنی جناح، برطانیہ، کانگریس اور ہندو فرقہ پرستوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مستقبل میں جمہوری سوشلسٹ اتحاد کی اپیل کی۔ لہٰذا جیسا کہ این سی ای آر ٹی ماڈیول میں کہا گیا ہے، کانگریسی رہنماؤں کی ’مجبوری سے تقسیم قبول کرنے‘ کو وجہ بتانا نہ صرف تاریخی طور پر غلط ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی مشکوک ہے۔


بپن چندرا اور سُمت سرکار سے لے کر مشیر الحسن، گیاننیدر پانڈے اور اُروَشی بُٹالیہ تک کے سنجیدہ تحقیقی مطالعوں نے تقسیم کے کئی باہمی جڑے اسباب بتائے ہیں، مثلاً:

  • تقسیم کو بڑھانے والی نوآبادیاتی پالیسیاں

  • فرقہ وارانہ قوم پرستی کا باہمی فروغ

  • مختلف قیادتوں کی ناکامیاں

  • اقلیتوں، ذات پر مبنی گروپوں اور صوبوں کی ساختیاتی تشویشات

  • انتظامی عجلت، جس نے سیاسی علیحدگی کو اجتماعی قتل و غارت میں بدل دیا

پانڈے کی ’رمیمبرنگ پارٹیشن‘ نے اس بات پر زور دیا کہ کس طرح تشدد نے قومی شناخت کو تشکیل دیا اور نچلے طبقات کی آوازوں کو دبا دیا، خصوصاً ان عورتوں کی جنہیں اغوا، زنا یا جبری ہجرت کا سامنا کرنا پڑا۔ حسن کی ’لیگیسی آف اے ڈیوائیڈیڈ نیشن‘ میں دکھایا گیا ہے کہ ہندو اکثریت پسندی اور مسلم علیحدگی پسندی ایک دوسرے کے عکس تھے اور 1947 کے بعد بھی شک و شبہات کے حصار کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے۔

سچائی بہت پیچیدہ اور کئی سطحوں والی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے بچوں/طلبا کو اس پوری کہانی کی تمام الجھی ہوئی اور متضاد حقیقتوں سے روشناس کرایا جائے۔ لیکن این سی ای آر ٹی انہیں محض ایک ’چارج شیٹ‘ یعنی فریب نامہ تھما رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔