این سی ای آر ٹی کی کتابیں ہندوتوا تاریخ کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہیں... روچیکا شرما
نصابی کتابوں میں جس طرح تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کا ایجنڈا پورا کرنے میں مصروف ہیں۔

درجہ 8 کے لیے حال ہی میں شائع این سی ای آر ٹی کی تاریخ کی کتاب دلائل اور تعلیمی نظریہ سے سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ حالانکہ برسراقتدار سیاسی پارٹی کے موزوں بیانیہ میں تبدیلی کرنا این سی ای آر ٹی (نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ) کی تاریخ پر مبنی کتابوں کی خاصیت رہی ہے، لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے جب اس نے حقائق کو سرے سے پلٹ دیا اور ہندوستان کی تاریخ پر دہائیوں کی اکیڈمک تحقیق کو نظر انداز کر دیا۔
ایسی کئی مثالیں ہیں جو اوپر لکھی باتوں کی تصدیق کرتی ہیں۔ مثلاً درجہ 8 کی تاریخ کی نصابی کتاب جزیہ کی تاریخ کو پوری طرح غلط طریقے سے پیش کرتی ہے۔ جزیہ غیر مسلم آبادی سے وصول کیا جانے والا ٹیکس تھا جو انھیں فوجی خدمات سے چھوٹ دیتا تھا اور ریاست کو ان کی حفاظت کے لیے ذمہ دار بناتا تھا۔ لیکن نصابی کتاب میں کہا گیا ہے کہ یہ غیر مسلم آبادی کو تبدیلیٔ مذہب کے لیے دی جانے والی شئے تھی، جبکہ دور وسطیٰ کے ہندوستان میں کسی بھی اسلامی ادب میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغل شہنشاہ اکبر نے اپنی حکومت کے آخری سالوں میں جزیہ پر روک لگا دی تھی۔ یہ حقائق سے کوسوں دور ہے۔ اکبر نے 1560 میں اقتدار سنبھالا اور اپنے شروعاتی وقت میں ہی، یعنی 64-1563 میں اس نے تفریق آمیز ہونے کی بنیاد پر جزیہ ٹیکس کو ختم کر دیا تھا۔
این سی ای آر ٹی کے ذریعہ درجہ 12 کی تاریخ کی کتاب میں کی گئی تبدیلیوں میں بھی ایسی ہی حقائق پر مبنی غلطیاں موجود ہیں۔ 2019 کی ’سیل اینڈ سائنس‘ میں موجود جینیاتی مطالعہ کے علاوہ لسانی اور تاریخی ثبوتوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ آریہ باہر سے آئے تھے، لیکن انھیں نظر انداز کرتے ہوئے کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آریہ ہندوستان کے ہی بنیادی باشندہ تھے۔ یہ ایسا دعویٰ ہے جس کی حمایت میں آج تک ایک بھی اسٹڈی موجود نہیں ہے۔
حقائق پر مبنی خامیوں کے علاوہ دورِ وسطیٰ کے ہندوستان میں خواتین سے متعلق تاریخ کے کچھ حصوں کو بھی ہٹا دیا گیا، جبکہ وہ کئی طالبات کے لیے قابل ترغیب ہو سکتے تھے۔ رضیہ سلطان (1240-1236ء) اور سولہویں صدی میں بیگم نور جہاں کی عظیم الشان حکومت کو نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ رضیہ سلطان نے حکمت عملی کے ذریعہ منگول حملہ (1238ء) کو ناکام کیا، پردے سے باہر آئیں، اپنے نام پر سکہ ڈھالے اور ترکی بندگان (مرد فوجی غلام) کے ذریعہ انھیں گدی سے ہٹانے کی کئی کوششوں کو ناکام کیا۔ اس کے علاوہ وہ ایک شاندار شاعرہ بھی تھیں۔ ایسی ماہر خاتون حکمراں ان طلبا کے لیے ایک تازگی بھرا سبق ہوتیں جو عام طو رپر مرد حاکموں کے بارے میں ہی پڑھتے ہیں۔ اسی طرح مغل رانی نور جہاں نے 1627-1621ء تک اثردار طریقے سے حکومت کی، جب ان کے شوہر بادشاہ اورنگ زیب کی صحت خراب تھی۔
اس دوران نور جہاں نے مہر ازک (مغل شہنشاہوں کی شاہی مہر) کو قابو کیا، فرمان (شاہی احکامات) جاری کیے، بادشاہ کے ساتھ اپنے نام کا سکہ جاری کیا، جہانگیر کو ایک انقلابی مہابت خان کے چنگل سے آزاد کرایا اور دہلی و آگرہ میں کئی عالیشان عمارتوں و سرایوں کو تحفظ فراہم کیا۔ دودامی (خواتین کا ایک لباس)، پنچ تولیہ (ایک طرح کی ہلکی اوڑھنی)، بدلا (چاندی کی زری والا)، کناری (چاندی کا فیتہ) جیسے کئی لباس کو ایجاد کرنے کا سہرا نور جہاں کو دیا جاتا ہے۔ وہ ایک ماہر شکاری بھی تھیں۔ این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں سے نور جہاں کی تاریخ کو ہٹانا ہندوستانی تاریخ میں خواتین کے تعاون کو کمتر ظاہر کرنا ہے۔ خواتین عام طور پر تاریخ کے ریکارڈ سے غائب رہتی ہیں اور رضیہ سلطان و نور جہاں جیسی طاقتور خواتین کی تاریخ کو ہٹا کر این سی ای آر ٹی نے طلبا کو یہ بتانے کا بہترین موقع گنوا دیا ہے کہ خواتین حکومت کے معاملوں سے کس طرح نمٹتی تھیں، اور مردوں کی بالادستی والے سماج کی باگ ڈور سنبھالنے والی خواتین کے سامنے کس طرح کے چیلنجز پیش آتے تھے۔
اسی طرح این سی ای آر ٹی کے سامنے موقع تھا ’مندر انہدام‘ کی سیاست کے بارے میں طلبا کو سمجھانے کا، لیکن اس میں بھی وہ ناکام ہو گیا۔ مختلف حاکموں کی مثالوں کے ساتھ مندروں، بودھ مٹھوں اور مسجدوں کو یکساں طریقے سے توڑنے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے اس کے پیچھے کی سیاست کے بارے میں پڑھایا جانا چاہیے تھا۔ این سی ای آر ٹی کے درجہ 8 کی نصابی کتاب صرف سلطنت اور مغل دور کے ضمن میں مندر انہدام کی بات کرتی ہے، جس سے طلبا میں یہ غلط اور خطرناک پیغام جاتا ہے کہ صرف دہلی کے سلاطین اور مغلوں نے ہی مندر توڑے تھے۔ گیارہویں صدی میں چالکیہ حاکم سومیشور اوّل کو شکست دینے کے بعد راجندر چول کے ذریعہ پولیکارا نگر (کرناٹک کا ایک شہر) میں کئی جین مندروں کو منہدم کیا، نویں صدی میں کشمیر کے حاکم شنکر برمن کے ذریعہ 64 مندروں میں لوٹ پاٹ کی گئی، گیارہویں صدی میں کشمیر کے راجہ ہرش کے ذریعہ مندروں اور مورتیوں کو تباہ کیا گیا، دسویں صدی کے حاکم چھیم گپت کے ذریعہ کشمیر کے ایک بودھ مٹھ جیندر وِہار کو جلائے جانے کے واقعات این سی ای آر ٹی کو یہ دکھانے کا موقع دے سکتی تھیں کہ کس طرح ترکوں کے ہندوستانی برصغیر میں قدم رکھنے کے پہلے ہی کئی حاکموں کے ذریعہ سیاسی و مالی اسباب کے ساتھ ساتھ مذہبی رقابت کے سبب مندروں اور مٹھوں کو توڑا گیا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوتا کہ مندر توڑے جانے جیسے پیچیدہ اور حساس موضوع پر طلبا کی سوچ وسیع ہوتی۔ آج مندر انہدام کو عام طور پر فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ این سی ای آر ٹی نے مغل حاکموں کو ’ظالم‘ اور ’بے رحم‘ بتانے کے لیے قصداً صرف مغل دور کے دوران کیے گئے مندر انہدام کو کتاب میں جگہ دی۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ این سی ای آر ٹی درجہ 8 کے طلبا کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے کہ سلطان اور مغل ہی ظالم، بے رحم اور مندر توڑنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1751-1741ء کے دوران بنگال میں مراٹھا مظالم کو این سی ای آر ٹی کے درجہ 8 کی تاریخ سے متعلق نصابی کتاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ بنگال میں مراٹھا کی فوجی مہم بنگالیوں پر مظالم اور لوٹ پاٹ سے بھرے رہے، جس سے بنگالی کسان خستہ حال ہو گئے۔ یہ آج بھی ایک بنگالی نظم ’چھیلے گھمالو، پاڑا جُڑلو بارگی ایلو دیشے...‘ کے ذریعہ یاد کیا جاتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کس طرح بورگی (مراٹھا حملہ آور) نصف رات کو آتے ہیں، بنگال کی جائیداد لوٹ لے جاتے ہیں اور کسانوں کے پاس ٹیکس ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں چھوڑتے۔ حالانکہ این سی ای آر ٹی مراٹھا حاکموں کو ’ظالم‘ نہیں مانتا اور صرف مسلم حاکموں کو ہی اس طرح پیش کرتا ہے۔ عام لوگوں کے خلاف ظلم کی ایسی ہی مثالوں کا ذکر راجندر چول نے اپنی گیارہویں صدی کی ’کرندئی پرشستی‘ میں کیا ہے، جس میں چالکیوں کو شکست دینے اور ان کی راجدھانی مانیہ کھیت کو جلانے کے لیے راجہ کی تعریف کی گئی ہے۔ اس حملہ میں کئی خواتین اور بچے بھی مارے گئے تھے۔
لیکن ایسی مثالیں این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں میں نہیں ملیں گی، اور یہ کتابیں نوجوان طلبا کے من میں یہ غیر تاریخی سوچ پیدا کرتی ہیں کہ صرف مسلم حاکموں نے ہی جنگ کے دوران ظلم کیا، جبکہ ہندوستانی تاریخ میں تشدد اور جبر ہر سلطنت کی بنیاد تھی۔
یہاں تک کہ تشدد کی ہم عصر مثالیں، مثلاً تقسیم کے فسادات، بابری مسجد انہدام اور 1992 کے فسادات و 2002 کے گودھرا فسادات میں بھی درجہ 11 اور 12 کی این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے ہٹا دی گئی ہیں۔ تشدد کی کچھ مثالوں کو چھوڑ کر طاقتور خواتین کی تاریخ کو ہٹا کر مسلم سلطانوں کے تئیں فرقہ وارانہ نظریات کو شامل کر کے، حقائق کو مٹا کر اور قائم اکیڈمک ریسرچ کو حاشیے پر رکھ کر این سی ای آر ٹی ایسی نصابی کتابیں تیار کرنے میں مصروف ہے جو طلبا میں تنقیدی سوچ کو ختم کرتی ہے۔ این سی ای آر ٹی کا نصاب مقرر کرنے والے اراکین میں 24 کا سیدھا تعلق آر ایس ایس سے ہے، اور اس طرح اس کی کتابیں آر ایس ایس کے نظریات کا ترجمان بن کر رہ گئی ہیں۔
(مضمون نگار ڈاکٹر روچیکا شرما دہلی میں مقیم مورخ اور پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔