ناگپور کا خونی دروازہ: نواب قادر علی خاں اور ان کے 8 ساتھیوں شہادت کا گواہ

اہلیان ناگپور میں خوف و حراس پید ا کرنے کے لیے ان مجاہدین کی نعشوں کو تین روز تک دروازے پر لٹکا رہنے دیا گیا

کونی دروازہ ناگپور
کونی دروازہ ناگپور
user

شاہد صدیقی علیگ

میرٹھ سے 10 مئی 1857 کو اٹھی چنگاری کے شعلوں نے دیکھتے ہی دیکھتے شمالی ہندکے بیشتر حصوں کو اپنی چپیٹ میں لے لیا، جس کی تپش جون مہینے میں ناگپور تک پہنچ گئی جہاں راجہ رگھو جی ثانی کی بیوہ رانی باکا بائی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تعاون سے حکومت چلا رہی تھی۔ انتظامی امور کمشنر جے پلوڈن اور ڈپٹی کمشنر آر ایس ایلس دیکھتے تھے۔ ناگپور کی کامٹی چھاؤنی میں ایک مدراسی رجمنٹ مقیم تھی جس میں کولیری اور پیدل سپاہیوں کا ایک دستہ اور کچھ توپ خانہ موجود تھا، ناگپور کے دیسی سپاہیوں کو میرٹھ، دہلی، لکھنؤ اور کانپور کی کامیاب مہمات نے مشتعل کر دیا چنانچہ انہوں نے بھی انگریزی غلامی کے چولے کو اتار پھینکنے کا عزم کر لیا۔ لیکن حالات کے مدنظر بت بنے رہے تاہم خفیہ طریقے سے قرب و جوار کے رؤسا، زمینداران اور انقلابی سپاہیوں کے مابین خفیہ میٹنگیں چلتی رہیں۔

انجام کار 13 جون کو انقلابی سپاہیوں نے موتی باغ میں واقع مشن ہاؤس پر حملہ کرنے کے منصوبہ کو حتمی شکل دی، مگر 12 جون 1857 کی رات کو ہی انگریزی پیادے فیض بخش نے مقامی انگریز اسٹفین ہسلاپ کو اس سازش سے آشکار کر دیا۔ جس نے فل الفور یہ بات کمشنر جے پلوڈن اور ڈپٹی کمشنر آر ایس ایلس کو پہنچاد ی۔ جنہوں نے شہر میں مخبروں کا جال پھیلا دیا تاہم وہ انقلابی مہم کا سدباب کرنے سے قاصر رہے۔


حکمت عملی کے تحت 13 جون 1857 کی شب مشن ہائی اسکول کے نزدیک ایک سنسان میدان میں تقربیاً 400 مسلمان جمع ہوئے اور ناگلی چھاؤنی کے باغی سپاہیوں کا انتظار کرنے لگے۔ ادھر انقلابی گھوڑسوار بھی اپنی بیرکوں سے نکل کر تیار بیٹھے تھے اور اس دفعدار کے منتظر تھے جسے انہوں نے پیدل سپاہیوں کی جانب خبر دینے کے لیے بھیجا تھا۔ اسی اثنا میں اس دفعدار کو ایک مدراسی حولدار نے شبہ کی بنیاد پر پکڑ لیا اور اسے دھمکی دے کر اس سے سارا راز اگلوا لیا۔ سازش کا انکشاف ہوتے ہی فرنگیوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ انہوں نے خواتین اور بچوں کو فوراً کامٹی چھاؤنی بھیج دیا اور وہاں سے ناگپور کے لیے کمک طلب کی۔ کچھ انگریز کامٹی بھاگے تو کچھ سیتا بلڈی کے قلعے میں پناہ گزین ہو گئے۔

راز طشت از بام ہونے پر مجاہدین کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا بجہت ان کی ہمت سرد پڑ گئی۔ اگلے روز 14 جون کو انگریزی ٹکڑی ناگپور پہنچ گئی۔ میجر ایرونے سپاہیوں سے سازش کے سرغنہ کا نام بتانے کی ا پیل کی لیکن کوئی سپاہی آگے نہیں آیا، تو کمشنر نے تفتیش کے لیے اپنے بھروسہ مند لوگوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں فیض بخش اور تفضل حسین بھی شامل تھے۔ ان ضمیر فروشوں کی بدولت بہت جلد تحریک کا پردہ فاش ہو گیا اور انقلاب کے روح رواں نواب قادر خاں اور نواب دلدار خاں (دفعدار) کو مع ساتھیوں کے گرفتار کر لیا گیا۔


نمائشی عدالتی چارہ جوئی کے بعد نواب قادر خاں، صدیق علی خاں، اکبر علی خاں، ولایت علی خاں، بنیاد علی (رسالہ دار)، یوسف علی خاں، معین الدین حسین (جمعدار)، عنایت اللہ خاں اور مرہٹہ سپاہی واگھلے جمعدار کوناگپور کے جمعہ دروازے (گاندھی گیٹ) پر 9 اگست 1857 کو تختہ دار کی سزائیں دی گئیں۔ قابل ذکر بات ہے کہ اس گیٹ کو تقربیاً 1710 میں بخت بلند شاہ کے فرزند چاند سلطان نے تعمیر کرایا تھا۔ اہلیان ناگپور میں خوف و حراس پید ا کرنے کے لیے ان مجاہدین کی نعشوں کو تین روز تک دروازے پر لٹکا رہنے دیا گیا، انگریزوں کے اس ظلم وستم کو دیکھ کر عوام میں بے چینی پیدا ہونی لازمی تھی چنانچہ تین روز بعد ان تمام جنگجو ؤں کو سیتا بلڈی قلعہ میں سپرد خاک کرد یا گیا،جن کی آخری آرام گاہ کو آج لوگ درگاہ غازی بابا کے نام سے پکارتے ہیں۔

مگر انقلابی خاموش نہیں بیٹھے بلکہ انگریزوں سے بدلے لینے کے لیے مناسب رہنما کی تلاش میں سرگرم ہوگئے۔ جس کی خبررانی باکا بائی تک پہنچ گئی۔ اس نے انقلابیوں کو اپنے پاس بلاکر یہ کہا کہ کوئی کسی بھی قسم کا ہنگامہ نہیں کرے گا۔ اس نے کچھ مخصوص لوگوں کو اپنے محل میں روزانہ حاضری دینے کا حکم بھی دیا اور یہ دھمکی بھی دی کہ جو بغاوت میں حصّہ لے گا اسے انگریز افسروں کے ہاتھوں گرفتار کرا دوں گی چاہے وہ میرا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح ہم وطنوں کی بے وفائی سے مجاہدین کی آرزو خاک میں مل گئی۔ حالات معمول پر آنے کے بعد انگریزوں نے اپنے نان خواہوں کو پورا صلہ دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔