بندشوں کو توڑ آگے بڑھ رہیں مسلم بیٹیاں، کوئی فائٹر پائلٹ بنی تو کوئی لاء رائٹر، اور کسی نے اسپورٹس میں لگائی چھلانگ

قابل ذکر بات یہ ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں ایک طرف جہاں مسلم لڑکیاں لگاتار بہتر کارکردگی پیش کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف مسلم لڑکے کچھ حد تک پیچھے ہو رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ successkunji.com</p></div>

تصویر بشکریہ successkunji.com

user

تنویر احمد

مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں عدم دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں مسلم بچیوں نے بندشوں کو توڑ کر تعلیم کے شعبہ میں کچھ اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ مسلم بچیوں میں تعلیمی بیداری پیدا ہونے کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ نام ایسے مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کا کچھ وقت پہلے تک تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سخت جدوجہد اور انتھک محنت کرتے ہوئے کسی نے پہلی مسلم خاتون فائٹر پائلٹ بننے کا تاج حاصل کیا، تو کسی نے لاء رائٹر بن کر مسلم لڑکیوں کو نئی راہ دکھائی، اور کسی نے اسپورٹس میں بے مثال کارکردگی پیش کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کرنے کی طرف قدم بڑھا دیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں ایک طرف جہاں مسلم لڑکیاں لگاتار بہتر کارکردگی پیش کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف مسلم لڑکے کچھ حد تک پیچھے ہو رہے ہیں۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اسکول اور کالجوں میں مسلم لڑکوں کے مقابلے میں مسلم لڑکیاں سبقت حاصل کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ کو ہی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ 21-2020 میں ملک بھر کے اسکولوں میں 14.26 فیصد مسلم اسٹوڈنٹس کے داخلے ہوئے۔ ان میں مسلم لڑکوں کا فیصد 13.7 تھا اور مسلم لڑکیوں کا فیصد 14.8۔ کالجوں میں بھی کچھ یہی حالت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہایر ایجوکیشن پر وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 20-2019 میں ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیز میں 21 لاکھ سے زیادہ مسلم اسٹوڈنٹس تھے۔ ان میں مسلم لڑکوں کی تعداد 10.46 لاکھ تھی اور مسلم لڑکیوں کی تعداد 10.54 لاکھ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسکول و کالج میں مسلم لڑکوں کے مقابلے مسلم لڑکیاں زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں، لیکن اس حقیتق سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جس طرح مسلم بچیاں بندشوں کو توڑ کر آگے بڑھ رہی ہیں، مسلم بچے اس جوش اور ولولہ کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔


بہرحال، آج ہم کچھ ایسی مسلم بیٹیوں کا مختصر تعارف پیش کرنے جا رہے ہیں، جنھوں نے گزشتہ کچھ سالوں میں مسلم سماج کی سوچ بدلنے کا کام کیا ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر کھلے آسمان میں پرواز کرنے کی آزادی فراہم کی جائے تو وہ فضا میں ہر طرف اپنی کامیابی و کامرانی کی خوشبو بکھیرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ آزادی ملنے پر وہ نہ صرف اپنے خواب پورے کریں گی بلکہ خاندان اور ملک کا نام بھی روشن کریں گی۔

ثنا علی (ٹیکنیکل اسسٹنٹ، اِسرو):

ثنا علی کا تعلق مدھیہ پردیش کے ضلع ودیشا سے ہے۔ وہ ایک متوسط مسلم کنبہ کی ایسی ہونہار بیٹی ہے جنھوں نے اِسرو (ہندوستانی خلائی تحقیق تنظیم) میں بطور ٹیکنیکل اسسٹنٹ منتخب ہو کر تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ثنا کے والد ساجد علی ڈرائیور تھے جب وہ اپنی بیٹی کا خواب پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے تھے۔ اب وہ لیب اسسٹنٹ بن گئے ہیں اور بیٹی کی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے۔ 2023 کا آغاز ان کے لیے بے پناہ خوشیاں لے کر آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’خاندان کو کئی بار مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا لیکن اپنی بیٹی کو پڑھائی میں پیسے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔‘‘ ثنا کی کامیابی میں اس کی والدہ کا بھی اہم کردار رہا۔ ایک وقت تو انھوں نے اپنے زیورات بھی گروی رکھ دیے تھے۔ والدین کی محنت اور قربانیوں کو ثنا نے رائیگاں نہیں جانے دیا۔ اپنی کامیابی پر وہ کہتی ہے ’’لوگوں کو بیٹیوں کے تعلق سے اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔ بیٹیوں کو خوب پڑھائی کرنے دو۔ ان کے خوابوں کو بھی پنکھ لگنے دیں تاکہ وہ آسمان تک پرواز کر سکیں۔‘‘


ثانیہ مرزا (ممکنہ فائٹر پائلٹ):

ثانیہ مرزا ٹی وی میکینک شاہد علی کی بیٹی ہیں۔ اس نے 2022 میں ہوئے این ڈی اے امتحان میں 148واں رینک حاصل کیا ہے اور ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون فائٹر پائلٹ بننے کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔ کچھ ضروری ٹریننگ کے بعد ثانیہ کو فائٹر پائلٹ کا تمغہ حاصل ہو جائے گا۔ اتر پردیش کے مرزاپور کی رہنے والی ثانیہ مسلم لڑکیوں کے لیے ایک بہترین مثال بن گئی ہے۔ ثانیہ کامیابی اس لیے بہت اہم ہے کیونکہ وہ دیہات کی رہنے والی ہے جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا مسلم بچیوں کے لیے ایک خواب کی مانند ہے۔ ایسے ماحول میں ثانیہ این ڈی اے امتحان پاس کر ملک کی پہلی مسلم خاتون فائٹر پائلٹ ہونے کے ساتھ ملک کی دوسری خاتون فائٹر پائلٹ کا سہرا بھی اپنے سر باندھنے میں کامیاب ہوئی۔ ہندوستان کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ کا نام اونی چترویدی ہے اور ثانیہ شروع سے ہی انھیں اپنا رول ماڈل مانتی ہے۔

بشریٰ ارشد (آئی پی ایس):

اتر پردیش کے قنوج سے تعلق رکھنے والی بشریٰ ارشد کی کامیابی کی داستان کسی مثال سے کم نہیں ہے۔ بشریٰ نے 2020 کے یو پی ایس سی امتحان میں 234ویں رینک حاصل کر آئی پی ایس بننے کی راہ ہموار کی تھی۔ لیکن ان کا کارنامہ صرف 234ویں رینک حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ بڑی بات یہ ہے کہ دو بچوں کی ماں ہونے اور ٹنڈلا تحصیل میں ایس ڈی ایم عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود یہ کامیابی حاصل کی۔ بشریٰ تو شادی کرنے کے بعد اپنے شوہر ارشد کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی تھیں، لیکن 2016 میں واپس ہندوستان آئیں اور پھر اپنے خوابوں کو پرواز دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلے اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر ایس ڈی ایم کے عہدہ پر فائز ہوئیں، اور پھر 2018 میں جب سول سروس کا امتحان دیا تو 277ویں رینک حاصل کی۔ اس رینک سے انھیں اطمینان نہیں ہوا اور مزید تیاری کے ساتھ جب 2020 میں امتحان دیا تو 234ویں رینک ملی۔ بشریٰ نے ایک بار خود بتایا تھا کہ انھوں نے دفتر اور گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ روزانہ تقریباً 6 گھنٹہ پڑھائی کے لیے وقت نکالا۔ اس طرح بشریٰ نے نہ صرف دقیانوسی سوچ کو آئینہ دکھایا، بلکہ لوگوں کو عزم کی طاقت کا بھی احساس کرا دیا۔


فلک ناز (کرکٹر):

فلک ناز نے کرکٹ کے میدان پر اپنی چھاپ چھوڑ کر مسلم طبقہ کو بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کا بڑا پیغام دیا ہے۔ الٰہ آباد باشندہ فلک ناز کی کامیابی کے پیچھے بھی اس کے والد کی سخت جدوجہد ہے جو کہ چپراسی کی ملازمت کرتے ہیں۔ انھوں نے 18 گھنٹے کام کر کے اپنی بیٹی کے لیے کرکٹ میں نام روشن کرنے کا راستہ ہموار کیا۔ فلک ناز کو خواتین کے انڈر 19 ٹی-20 عالمی کپ میں ہندوستانی ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ عالمی کپ 14 جنوری سے شروع ہو چکا ہے اور 29 جنوری تک جاری رہے گا۔ آل راؤنڈر فلک ناز نے عالمی کپ سے پہلے کچھ میچ کھیلے اور وکٹ بھی حاصل کیے، لیکن فی الحال عالمی کپ کے کسی میچ میں انھیں کھیلنے کا موقع نہیں مل پایا ہے۔ اپنی کارکردگی سے فلک ناز نے سبھی کو متاثر کیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب وہ ہندوستانی ٹیم کے لیے اپنی بہترین کارکردگی پیش کریں گی۔

کائنات خان (لاء رائٹر):

راجستھان کے ضلع جھنجھنو باشندہ کائنات خان کی کہانی بھی بشریٰ ارشد کی طرح مثالی ہے۔ انگریزی ادب میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے والی کائنات خان نے اپنی شادی کے 13 سال بعد آر پی ایس سی کا امتحان جب پاس کیا تو وہ 11 سالہ بیٹی اور 4 سالہ بیٹے کی ماں بن چکی تھیں۔ کائنات خان کے والد شفیق احمد خان اس بات پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں کہ بیٹی راجستھان سکریٹریٹ کی پہلی مسلم خاتون لاء رائٹر ہے۔ آر پی ایس سی کا ریزلٹ جب 20 اپریل 2022 میں جاری کیا گیا تھا تو کائنات چوتھی رینک حاصل کر بہت خوش ہوئی تھیں۔ ان کے اہل خانہ اس کامیابی کی وجہ کائنات کی کتابوں سے دوستی بتاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ پتہ بھی نہیں ہوگا کہ لاء رائٹر کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ دراصل لاء رائٹر حکومت کی طرف سے لائے جانے والے ایکٹ کو ڈرافٹ کرنے کا عمل انجام دیتا ہے۔ ایکٹ کے اصول بنانا اور اسے شائع کروانا بھی متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے ذمہ ہوتا ہے۔


کوکب رضوان (پائلٹ):

کوکب رضوان کے کنبہ کو ایک مثالی کنبہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ والدین ہمیشہ اس کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں پیش پیش رہے۔ کوکب خود کہتی ہے کہ ’’بچپن سے ہی آسمان میں پرواز بھرنے کا خواب دیکھتی تھی۔ ماں باپ بھی ایسے ملے کہ انھوں نے کبھی بیٹی ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ جب جیسی خواہش ظاہر کی، وہ دونوں پورا کرتے گئے، اور نتیجہ یہ ہے کہ میں آج اس مقام تک پہنچ سکی۔‘‘ دراصل محمد رضوان اور شاہینہ پروین کی صرف دو بیٹیاں ہیں، جن میں سے ایک کوکب رضوان کو بیگو سرائے (بہار) کی پہلی مسلم پائلٹ بننے کا فخر حاصل ہوا ہے۔ انڈیگو میں ان کی ملازمت 2022 میں لگی ہے اور وہ اپنا خواب پورا ہوتے دیکھ کر بہت خوش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوکب کراٹے میں گرین بیلٹ ہے اور کئی سارے طلائی تمغے اپنے نام کر چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔