مہاتما گاندھی کے مسلم رفقاء... گاندھی جی کے 154 ویں یوم پیدائش کے موقع پر

آج یوم عدم تشدد ہے یعنی فادر آف نیشن مہاتما گاندھی کی یوم پیدائش۔ اس موقع پر ان شخصیات کو بھی یاد کرنا ضروری ہے، جنہوں نے موہن داس کرم چند گاندھی کا مہاتما بننے کے سفر کی ہر منزل پر بے لوث ساتھ دیا۔

<div class="paragraphs"><p>مہاتما گاندھی کے مسلم روفقاء / تصویر شاہد صدیقی علیگ</p></div>

مہاتما گاندھی کے مسلم روفقاء / تصویر شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

آج یوم عدم تشدد ہے یعنی فادر آف نیشن مہاتما گاندھی کی یوم پیدائش۔ اس موقع پر ان شخصیات کو بھی یاد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جنہوں نے موہن داس کرم چند گاندھی کا مہاتما بننے کے سفر کی ہر منزل پر بے لوث ساتھ دیا۔

جب مہاتما گاندھی 1888ء میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن پہنچے تو علم وفراست کے پیکر علی امام، حسن امام اور مولانا مظہر الحق جیسی شخصیات سے مراسم پیدا ہوئے جو آگے چل کر گہری دوستی میں تبدیل ہوگئے اور جب بیر سٹر کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھا تو انہیں جنوبی افریقہ کے ایک گجراتی نژادتاجر سیٹھ دادا عبداللہ حاجی آدم زویری نے 1892 ء میں مقدمہ لڑنے کے لیے ڈربن بلایا۔جہاں دادا عبداللہ کی قیادت میں گاندھی جی نے نسلی حملوں کے خلاف مسلسل تحریک چلائی۔ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کو دادا عبداللہ کے علاوہ حاجی عمر جوہری جیسے لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی۔جنہوں نے گاندھی جی کی ہر مشکل حالات میں مدد کی۔ جب 1915ء میں گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ہندوستان وارد ہوئے تو ان کے ساتھ امام عبدالقادر باوزیر معہ خاندان چلے آئے۔جنہوں نے سابر متی آشرم میں پرنٹنگ پریس کی ذمہ داری سنبھالی۔

جنوبی افریقہ میں کامیاب ستیہ گرہ مہم چلانے کے بعد گاندھی جی چمپارن ستیہ گرہ تحریک کے لیے 10 /اپریل1917ء کو پٹنہ پہنچے جن کے قیام کا انتظام ڈاکٹر راجندر پرساد کے گھر پر کیا گیا۔ لیکن جب راج کمار شکلا کے ساتھ گاندھی جی ان کے گھر پہنچے تو ڈاکٹر راجندر پرساد وہاں نہیں تھے چنانچہ ان کے خادموں نے ورن نظام کے چلتے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا،تب گاندھی جی نے لندن کے ہم جماعت دوست بیرسٹر مولانا مظہر الحق کو یاد کیا جو فوراً انہیں فریزر روڈ پر واقع اپنے گھر سکندر منزل لے گئے اور گاندھی جی کے چمپارن بہ ذریعہ مظفر پور جانے کا سارا بندوبست کیا۔چمپاران ستیہ گرہ تحریک میں کاشتکاروں کے رہبر شیخ گلاب اور پیر محمد مونس نے مکمل حمایت کی۔دریں اثنا موتی ہاری نیل کے باغات کے مینجر ارون نے گاندھی جی او ر ان کے رفقاء کو رات کے کھانے پر مدعو کیا اورخانسامہ بطخ میاں انصاری کو حکم دیا کہ باپو کے دودھ کے گلاس میں زہر ملادیا جائے جس کے لیے ا نہیں لالچ کے ساتھ دھمکی بھی دی گئی۔لیکن وطن پرست بطخ میاں نے اپنے آقا کی منشا کے خلاف کام کیا۔جس کی بطخ میاں کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔


برطانوی حکام نے 18 مارچ 1919ء کو رولٹ ایکٹ نافذ کیا۔ جس کے خلاف گاندھی جی نے صد ا ئے احتجاج بلند کی تو ان کی آوازپر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں بیرسٹر سیف الدین کچلو، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور حکیم اجمل خان وغیرہ تھے۔ جن کے پیروکار وں نے انگریزی افسران کو دن میں تارے دکھا ئے۔

مہاتما گاندھی نے سنہ 1920ء میں عدم تعاون تحریک شروع کی تو پوری خلافت کمیٹی نے ان کی کھل کر حمایت کی اور اپنے خرچ پر پورے ملک کا دورہ کرایا۔ عبدالباری فرنگی محلی خصوصاً علی بردارن مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی کی والدہ آبادی بیگم اور بیگم امجد ی اہلیہ محمد علی جوہرنے ان کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔

عدم تعاون اور خلافت جیسی قومی تحاریک کے لیے محمد عمر سبحانی (ممبئی) اور حاجی عثمان سیٹھ (بنگلور) نے دونوں ہاتھوں سے چندہ دیا۔ مزید برآں جب گاندھی جی’تلک سوراجیہ ندھی‘ کے لیے چندہ جمع کررہے تھے تب محمد عمر سبحانی نے انہیں بلینک چیک دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی مرضی سے جتنی چاہیں رقم لکھ لیجئے۔اسی طرح عثمان سیٹھ نے پنڈت نہرو اور علی برادرس کو زیورات،نقدی اور خالی چیک دے دیے تھے۔چنانچہ محمد عمر سبحانی کو مہاتما گاندھی نے اسٹیج منیجر کے لقب سے پکاراتو حاجی عثمان سیٹھ کانگریس کے کیش بیگ کہلائے۔

برصغیر میں سب سے پہلے عدم تشد د کے فلسفہ کا درس دینے والے خان عبدالغفار خان،عبدالصمد اور فرید الجمع نے گاندھی کا کندھے سے کندھا ملا کر ایسا تعاون کیا کہ ان کے ساتھ بھی گاندھی عرفیت منسلک ہوگئی یعنی سرحد ی گاندھی،بلوچی گاندھی اور وشاکھا گاندھی۔


جب مہاتما گاندھی نے 12 مارچ 1930ء کو ڈانڈی مارچ نکالا تو عباس طیب جی ان کے ہمراہ تھے۔یہی نہیں بلکہ طیب جی کے خاندان کی مستورات نے بھی ان کا ہر ممکن ساتھ دیاجن میں آمنہ طیب جی،بیگم ریحانہ عباس طیب جی، سکینہ لقمانی، حمید ہ علی طیب جی اور منیرہ بیگم جی پیش پیش تھیں۔

گاندھی جی طیب خانوادے کی قربت اور تعاون کا برملا اعتراف سر اکبر حیدر ی کو لکھے خط میں یوں کرتے ہیں، ”میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے طیب خاندان سے قریب کیا۔“

علاوہ ازیں بیگم خورشید خواجہ بھی گاندھی جی سے کافی قربت رکھتی تھیں۔ جب مہاتما گاندھی نے سابرمتی آشرم میں ریحانہ طیب جی سے ا ردو لکھنی پڑھنی سیکھی تو پہلا خط انہوں نے بیگم خورشید خواجہ کو ہی لکھا تھا۔اسی طرح بی بی امت السلام موہن داس گاندھی کی سچی پیروکار تھیں اور اپنی آخری سانس تک گاندھیائی نظریات کی پیروی کرتی رہیں۔جنہیں مہاتما گاندھی نے بھی ہمیشہ پیاری بیٹی امت السلام کہہ کر مخاطب کیا۔صدافسوس! آج ان محبان وطن شخصیات کی خدمات تاریخ ہند کے دبیز اوراق میں گم ہو گئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔