مشرف عالم ذوقی جب تک سوتے نہیں تھے، مستقل لکھتے رہتے تھے... سہیل وحید

تقریباً دو درجن فکشن کی کتابوں کے مصنف ذوقی کے کچھ بے حد مشہور ناول ہیں جنھوں نے ہندوستان اور پاکستان سمیت پوری اردو دنیا میں اپنی دھاک جمائی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل وحید

مشرف عالم ذوقی موجودہ اردو دنیا کا سب سے مشہور اور سب سے سرگرم نام۔ موجودہ اردو فکشن کا ایک ضروری نام۔ جدید اردو ادب کی ایک لازمی شخصیت۔ تقریباً تین دہائی سے زیادہ وقت تک انھوں نے اردو فکشن کی ہر صنف میں خوب لکھا۔ اتنا کہ جتنا شاید ہی کوئی لکھ سکے۔ مستقل لکھنے کے معاملے میں انھیں پریم چند کے بونسائی کی شکل میں دیکھا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ پریم چند کی ہی طرح اردو میں لکھنے کے بعد وہ ہندی میں بھی لکھتے تھے۔ اپنی کہانیوں کو خود ہی ہندی میں اتار لیتے تھے۔ انہی کی طرح ان کی کہانیوں میں اس دور کی زبان، انداز اور کردار ہوتے تھے۔ ذوقی نے ہمیشہ اپنے آس پاس کے بالکل قریب کے اور ساتھ میں جینے مرنے والوں کی کہانیاں لکھیں ہیں، انہی پر ناول لکھے ہیں۔

گزشتہ صدی میں جب اسّی کی دہائی اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا، تب انھوں نے پہلی بار بہار سے بستر باندھا اور لکھنؤ آئے تھے جہاں سے ان دنوں اردو کا ایک ماہانہ ادبی رسالہ ’معلم اردو‘ شائع ہوتا تھا۔ وہ سیدھے اس کے دفتر میں آئے، وہیں رکے اور ہفتہ بھر رکے۔ یہ ان کا پہلا بریک کہا جا سکتا ہے۔ یہیں سے انھوں نے اپنے کیریر کی شروعات کی۔ یہاں سے ایک نیوز میگزین ’کھوج خبر‘ بھی شائع ہوتی تھی۔ اس کے لیے بھی انھوں نے اس ایک ہفتے میں کئی شماروں کا مواد لکھ دیا۔ دیکھنے والوں نے تب دیکھا کہ ذوقی جب تک سوتے نہیں تھے، مستقل لکھتے ہی رہتے تھے۔ ذوقی سے پہلی بار وہیں ملاقات ہوئی تھی۔ ایک ہفتے ہی میں لکھنؤ سے ذوقی کا من بھر گیا اور بہار واپسی کی جگہ دہلی کا ٹکٹ کٹا لیا۔ اس کے بعد کہاں کا لکھنؤ اور کون سا بہار۔ تب سے جو انھوں نے لکھنا شروع کیا تو تب تک لکھتے رہے جب تک کہ ان کی سانسیں تھم نہیں گئیں۔


تقریباً دو درجن فکشن کی کتابوں کے مصنف ذوقی کے کچھ بے حد مشہور ناول ہیں جنھوں نے ہندوستان اور پاکستان سمیت پوری اردو دنیا میں اپنی دھاک جمائی۔ ان میں اہم ہیں ’بیان‘، ’پو کے مان کی دنیا‘، ’مرگ انبوہ‘، ’نالہ شب گیر‘، ’نیلام گھر‘، ’شہر چپ ہے‘، ’عقاب کی آنکھیں‘، ’آتش رفتہ کا سراغ‘، ’لے سانس بھی آہستہ‘۔ اس کے علاوہ ’نفرت کے دنوں میں‘ ان کا افسانوی مجموعہ ہے۔ ’آب روانِ کبیر‘ اردو تنقید پر مبنی ان کی تحریروں کا مجموعہ ہے اور ’گزرے ہیں کتنے‘ ان کے خاکوں اور دیگر ادبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب ’سلسلہ روز و شب‘ میں انھوں نے وہ مضامین شامل کیے ہیں جن میں اردو ناول اور دیگر موضوعات پر انھوں نے اپنے نظریات ظاہر کیے ہیں۔

تقریباً تین سال پہلے جب ذوقی کا ناول ’مرگ انبوہ‘ آیا تو سبھی چونک گئے تھے۔ اس میں جرمنی کے نازی ہولوکاسٹ کو ہندوستان کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ فاشزم کی جڑیں اور اس کی فصل، اس کا انجام اور اس کے مقاصد۔ ذوقی نے اپنی رو میں اس میں نہ جانے کہاں کہاں سے حوالے لے کر اسے لکھ ڈالا تھا۔ اسی طرح حال ہی میں شائع ان کا بے حد مشہور ہوا ناول ’مردہ خانے کی عورت‘ ہے۔ فی الحال یہ ان کا سب سے معروف ناول ہے۔ اس کا پلاٹ حال کے دنوں میں فاشزم کے تئیں بڑھتی دلچسپی اور اس سے پیدا ہونے والے حالات ہیں۔ اسے انھوں نے بے حد جذباتی انداز میں لکھا ہے۔ حالانکہ ان کی زیادہ تر تحریر جذباتی ہی کہی جاتی ہے۔ شاید ایسا ہے بھی، اردو ادب میں جتنے ٹھہراؤ، جتنے صبر، جتنے پختہ ہونے کی لازمیت کی سطح ابھی تک باقی ہے، اس میں ذوقی شاید کھرے نہیں اترتے تھے۔ ان کے جدید پریم چند بننے میں کہیں یہیں پر ناقدین کا ایک طبقہ اسی کو چھوٹا سا روڑا مانتا ہے، ورنہ ان کے لکھنے کا اسٹائل اور صرف لکھنے کا کمٹمنٹ اور صرف لکھ کر جینے کی لگاتار کوشش انھیں پریم چند بنانے میں کسر نہیں چھوڑتی۔ پریم چند کی ہی طرح انھوں نے بمبیا فلموں کے لیے کام کرنا چاہا لیکن انہی کی طرح ناکام ہوئے۔ لوٹے تو دوردرشن کے ساتھ سینکڑوں چھوٹی چھوٹی فلمیں اور ڈاکومنٹری بنا ڈالی۔ کئی سیریل کا پروڈکشن کیا اور سینکڑوں آڈیو ویزوئل فلموں میں انھوں نے کام کیا۔ ان کے اندر بھرپور توانائی نے انھیں کبھی چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیا۔ انھیں کچھ کرنا تھا، لکھنا تھا یا فلم بنانی تھی یا پھر کوئی ناول پڑھنا تھا۔


تیز رفتاری ان کی طاقت بھی تھی اور کمزوری بھی۔ ابھی گزشتہ سال ہی ایک مقبول اردو روزنامہ کے چیف ایڈیٹر بنا دیئے گئے تو وہاں کا نقشہ ہی بدل دیا۔ ظاہر ہے کہ بہت دنوں تک ایسے شخص کو لوگ برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔ چار پانچ مہینے میں ہی واپس آ گئے۔ لیکن چونکہ ان کے سینے میں ایک صحافی کا دل دھڑکتا تھا، اس لیے وہ کبھی بھی بہت زیادہ سوچ سمجھ کر لکھنے کے عادی نہیں ہو پائے۔ وہ جس دور میں لکھ رہے تھے اس دور میں رائٹر کا صحافی ہونا کوئی خاص بات نہیں مانی جاتی ہے، لیکن پچھلے زمانوں میں یہی بات سب سے بڑی خوبی ہوا کرتی تھی۔ ایسا کون سا سبجیکٹ تھا، ایسی کون سی پریشانی تھی یا ایسا کون سا معاملہ تھا جو کسی کے دل کو اگر چھو گیا تو ذوقی نے اس پر قلم نہ اٹھایا ہو۔ جب سے فیس بک آیا، تب سے تو ذوقی نے اسے ہی اپنا اخبار اور رسالہ بنا لیا تھا اور تقریباً ہر مسئلہ پر وہ خوب لکھتے تھے۔ کسی بھی ناانصافی کے ایک معمولی پہلو پر بھی ان کی نگاہ رہتی تھی، ضرور لکھتے تھے جیسے کہ اس پر لکھنے کا سب سے پہلا حق انہی کا بنتا ہے۔

ذوقی جب گزشتہ صدی کے اسّی کی دہائی کے آخر میں بہار سے لکھنؤ آئے تھے، تب سے لے کر اب تک صرف لکھ کر زندہ رہنے کی ان کی کوشش کو سو سو سلام۔ یہ بہت بڑا فیصلہ تھا، بہت بڑی جدوجہد کو دعوت تھی جسے انھوں نے ہمیشہ چیلنج کی شکل میں لیا۔ حالات کتنے بھی اور کیسے بھی رہے ہوں، ذوقی لکھتے رہے، پڑھتے رہے اور سب سے بڑا کمال کہ دہلی میں ٹکے ہی نہیں رہے بلکہ جمے رہے۔ ہمارے آس پاس شاید ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اپنے آپ کو فخر سے بتائیں کہ وہ مصنف ہیں۔ جدید ادب کے اس پجاری کے شوق بڑے روایتی تھے۔ شیروانی کی اوپری جیب میں گلاب کا پھول اور معیاری عطر ذوقی کی کمزوری تھی۔ وہ بغیر عطر لگائے شاید ہی کبھی گھر سے نکلے ہوں...۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔