محرم: ظلم کے خلاف قیام کا مہینہ

امام حسین کی شہادت نے امت مسلمہ کو یہ درس دیا کہ اگر دین کو بچانے کے لیے جان دینی پڑے، تو یہ ایک سعادت ہے

<div class="paragraphs"><p>عراق: کربلا میں امام حسین کی یاد میں عزاداروں کا اجتماع / Getty Images</p></div><div class="paragraphs"></div>

عراق: کربلا میں امام حسین کی یاد میں عزاداروں کا اجتماع / Getty Images

user

نواب علی اختر

اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام ماہ ذوالحجہ پر ہوتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حیات اسلام کا سفر قربانی سے شروع ہوتا ہے اور قربانی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم کرنا نہایت سہل ہے کہ ایک مسلمان کی تمام زندگی قربانیوں سے معمور ہے۔ ماہ ذوالحجہ کی 10 تاریخ کو حضرت اسماعیل رضائے الہی کی خاطر اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرتے ہیں جبکہ ماہ محرم الحرام کی 10 تاریخ کو حضرت امام حسین رضائے الہی کی خاطر سجدے کی حالت میں اپنا سر کٹوا کر دین اسلام کو حیات ابدی عطا کر دیتے ہیں اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں کہ یہ سر اللہ کے حضور کٹ تو سکتا ہے مگر کسی ظالم اور جابر کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ یہ تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی تھی جو ماہ محرم الحرام میں پیش آئی۔

اسلامی سال کا آغاز جس مہینے سے ہوتا ہے وہ ’محرم الحرام‘ ہے، جسے قرآن و سنت کی روشنی میں حرمت والا، عظمت والا اور احترام والا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں تاریخ اسلام کی ان لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو صبر، استقامت، ایثار اور حق پر ڈٹے رہنے کی مثالیں قائم کرتی ہیں۔ محرم کا مہینہ خصوصاً واقعہ کربلا کی نسبت سے ہمیں صبر کی اعلیٰ ترین تعلیمات دیتا ہے۔ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ ایک روحانی مقام ہے جس کا انعام اللہ کی طرف سے بے حساب ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس مہینے کی روحانی کیفیت، جذباتی وابستگی اور فکری پیغام ہر صاحبِ ایمان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر وحدت، یگانگت، یک جہتی اور اخوت و بھائی چارے کا جذبہ پیدا کرے۔

ہر سال ماہِ محرم الحرام کا چاند اپنے ساتھ غم و اندوہ، مصائب و آلام، گریہ و اشک زاری اور حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو ان کے لخت جگر، میوہ دل، نورِ عین حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کا پرسہ دینے کے لیے فرشِ عزاء بچھانے کا پیغام لے کر طلوع کرتا ہے لیکن حقیقت میں ہر سال محرم الحرام کی آمد ہمیں مقصد حسینی کی یاد دِلاتی ہے کہ کبھی بھی اور کہیں بھی ظلم کے خلاف خاموشی اختیار نہ کریں اور ہر ایک اپنی توان و طاقت اور استطاعت کے مطابق ظلم کے خلاف قیام کرے۔ واقعہ کربلا میں ہمیں جاں نثاری و فداکاری، ایثار و قربانی، وفاداری و وفاشعاری، اطاعت و فرمانبرداری اور شہادت طلبی کے ایسے بے مثال نمونے ملتے ہیں جو کسی اور واقعے میں نہیں پائے جاتے۔


کربلا میں شش ماہِ شیرخوار سے لے کر 80 سال کے بوڑھے افراد تک موجود ہیں، جو جوش و جذبے اور مروّت و جوانمردی میں کسی سے کم نظر نہیں آتے۔ جیسے اصحاب حضرت امام حسین علیہ السلام کو ملے، نہ اِس سے پہلے کسی کو ملے اور نہ رہتی دنیا تک کسی کو ملیں گے۔ امام عالی مقام کے باوفا اصحاب کے نقشِ پاء میں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہر قسم کا بے مثال اور بے نظیر نمونہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ کربلا قیامت تک انسانوں کے لیے ایک ناقابل انکار دائمی درسگاہ ہے جو مسلسل حرّیت و آزادی اور ایثار و فدا کاری کا پیغام دے رہی ہے۔ لہٰذا ہر سال ماہِ محرم الحرام کی آمد تمام انسانوں بالخصوص حسینیوں کے اعتقادی، فکری اور ذہنی دریچوں کو کھولنے اور تجدیدِ عہد کے لیے ایک بہترین فرصت ہے، جسے ہرگز ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے۔

کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جو تا قیامت انسانیت کو حریت، قربانی، اور صبر کی تعلیم دیتا رہے گا۔ نواسہ رسول حضرت امام حسین نے وقت کے جابر حکمران یزید کے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن کر صرف اپنی جان ہی نہیں قربان کی بلکہ اپنی اولاد، اعزاء، اصحاب اور اہل بیت کی جانوں کو بھی قربان کر دیا۔ یہ قربانی محض ایک سیاسی احتجاج نہ تھا، بلکہ دین کے اصل روح کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد تھی۔ امام حسین نے فرمایا: میں یزید کی بیعت اس لیے نہیں کرتا کہ وہ فاسق، فاجر، شرابی، قاتل نفس محترمہ اور دین کے احکام کو پامال کرنے والا ہے۔ امام کی شہادت نے امت مسلمہ کو یہ درس دیا کہ اگر دین کو بچانے کے لیے جان دینی پڑے، تو یہ ایک سعادت ہے۔ یہ مہینہ بیداری، شعور، اصلاح اور تقویٰ کی تجدید کا موقع بھی ہے۔

آئمہ معصومین کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح اس مہینے کی تعظیم و تکریم کریں اور اس کی روحانی و فکری تیاری کریں۔ واقعہ کربلا کے بعد صبر کا ایک اور عظیم پیکر حضرت زینب کی صورت میں سامنے آیا۔ شام کے دربار میں یزید کے سامنے، جہاں ظلم کی انتہا ہو چکی تھی، حضرت زینب بنت علی نے جو کلمات ادا کیے، وہ صبر، شجاعت اور دینی غیرت کی لا زوال مثال ہیں۔ صبر کامل یقین اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا نام ہے۔ آج جب مسلم معاشرہ اخلاقی، سماجی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے، تو محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان، اخلاص اور صبر کے بغیر ہم ظلم، ناانصافی اور باطل قوتوں کے سامنے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ امام حسین نے ہمیں یہ سبق دیا کہ حق کے لیے جان کی بازی لگا دینا ہی اصل کامیابی ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کربلا کے پیغام کو اپنے معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بنائیں۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، حق کی حمایت کریں اور ذاتی مفادات کی خاطر جھوٹ، منافقت اور کرپشن کا حصہ نہ بنیں ۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ امام حسین کے کردار کو سمجھیں، تاریخ اسلام کے ان صفحات کو پڑھیں جو قربانی اور صبر سے لبریز ہیں۔ اسوہ حسینی کو اپنانا صرف عزاداری میں شرکت تک محدود نہ ہو بلکہ ان کی سیرت کو عملی زندگی میں لانا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ آج جب نوجوان سوشل میڈیا، فیشن اور مادی دنیا میں کھو گئے ہیں، ان کے لیے امام حسین کی حیات رہنمائی کا روشن چراغ ہے۔ ان کا پیغام ہے کہ جیو عزت سے، مرو حق پر۔


محرم الحرام کا مہینہ ہمیں تقویٰ، عبادت، صبر، قربانی اور سچائی کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق کی خاطر کھڑے ہونا، اگرچہ جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ دینا پڑے، سب سے بڑی کامیابی ہے۔کربلا کے میدان میں امام حسین اور ان کے جانثاروں نے ثابت کر دیا کہ صبر کرنے والے ہی اصل فاتح ہوتے ہیں اور ظالم وقت کی دھول میں گم ہو جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم محرم کی ظاہری رسومات کے ساتھ ساتھ اس کے باطنی پیغام، یعنی صبر، قربانی، استقامت اور حق پر ڈٹے رہنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ تبھی ہم خود کو’امت حسینی‘ کہلوانے کے قابل ہو سکیں گے۔اگرچہ اہل عزاء ہر سال محرم الحرام کے آغاز سے قبل ہی پیغمبر خدا کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہراءکوان کے میوہ دل اور نورِ عین حضرت امام حسین اور دیگر اعزاء، اقرباءاور انصار کا پرسہ دینے کا اہتمام کرتے ہیں۔

شہید انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی کو صرف محرم و صفر کے ایام کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سید الشہداء کی قربانی اِن اہداف کے لیے تھی بلکہ آپ کی شہادت کا اصل مقصد انسانوں کو بیدار کرنا تھا تاکہ ان میں حرّیت پسندی اور آزاد منشی کو فروغ دیتے ہوئے ایک ایسے اسلامی معاشرے کا تصور پیش کریں جس میں رواداری و برادری اورعفو و درگزر کے ساتھ ساتھ، ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا جذبہ بھی موجود ہو اور وہ ایثار و قربانی کے جذبے سے بھی سرشار ہوں اور ایسے انسانوں کے لیے کربلا ہر لحاظ سے تاقیامِ قیامت ایک آئیڈیل درسگاہ ہے۔ محرم الحَرام ایثار، قربانی، اتحادِ امت، باہمی رواداری اور پرامن بقائے باہمی کا درس دیتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔