قومی آواز کی اشاعت پھر سے کیوں!



ایسو سی ایٹ جرنلز لمیٹیڈ (اے جے ایل) کے چیئرمین موتی لالل وورا ’قومی آواز‘ کے آن لائن ایڈیشن کا افتتاح کرتے ہوئے، ساتھ میں ایڈیٹر ان چیف نیلابھ مشرا، ’قومی آواز‘ کے چیف ایڈیٹر ظفر آغا، اے جی ایل کے ڈائریکٹر آسکر فرنانڈیز، دیپندر ہڈا اور ’قومی آواز‘ کی ٹیم
ایسو سی ایٹ جرنلز لمیٹیڈ (اے جے ایل) کے چیئرمین موتی لالل وورا ’قومی آواز‘ کے آن لائن ایڈیشن کا افتتاح کرتے ہوئے، ساتھ میں ایڈیٹر ان چیف نیلابھ مشرا، ’قومی آواز‘ کے چیف ایڈیٹر ظفر آغا، اے جی ایل کے ڈائریکٹر آسکر فرنانڈیز، دیپندر ہڈا اور ’قومی آواز‘ کی ٹیم
user

موتی لال وورا

روزنامہ ’قومی آواز ‘ کی اشاعت کا سلسلہ سن 1945میں لکھنؤ سے جواہر لال نہرو کے مبارک ہاتھوں سے عمل میں آیا ۔ تب سے سن 2008تک لگا تار ’قومی آواز‘ نے دہلی ،لکھنؤ،پٹنہ،ممبئی اور گواہاٹی جیسے اہم اردو مراکز سےاردو قارئین کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے رکھی۔ لیکن سن 2008میں ’قومی آواز‘ کی اشاعت نا گفتہ بہہ حالات کے سبب معطل ہو گئی۔اب ایک بار پھر ’قومی آواز‘ پیش خدمت ہے جو فی الحال ڈیجیٹل شکل میں ہے۔

لیکن جواہر لال نہروکو اس وقت ایک اردو اخبار شروع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سنہ 1945 کا سال ہندوستانی جنگ آزادی کے دوران ایک اہم سال تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب آزادی دستک دے رہی تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ملک پر محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے پرچم تلے ہندوستان کے بٹوارے کی آہٹ بھی صاف سنائی پڑ رہی تھی۔ یعنی ملک آزادی کے کگار پر تو تھا لیکن اس آزادی کی قیمت ملک کا بٹوارا تھا۔

ظاہر ہے کہ ان حالات میں جواہر لال نہرو جیسے عظیم المرتبت قائد کو اس بات کا سخت احساس تھا کہ اردو قاری کو کیسے یہ سمجھایا جا ئے کہ آزاد ہندوستان کا خطہ و خال کیسا ہوگا اور ساتھ ہی اس کو فرقہ پرست سیاست کے خطرات سے کیسےبچایا جائے۔ قومی آواز کا قیام سنہ 1945 میں اردو قاری کو انہی مسائل سے آگاہ کرنے اور ان مسائل کا حل سمجھانے کے لئے کیا گیاتھا۔ اخبار کے ادارت کی ذمہ داری عشرت علی صدیقی جیسی قدآور و گراں قدرشخصیت کو سونپی گئی جنھوں نے اپنے زور قلم سے قومی آواز کا ڈنکا تھوڑے ہی عرسے میں ہندوستان کی اردو دنیا میں بجا دیا۔



ایسو سی ایٹ جرنلز لمیٹیڈ کے چیئرمین موتی لال وورا ’قومی آواز‘ آن لائن ایڈیشن کا افتتاح کرتے ہوئے
ایسو سی ایٹ جرنلز لمیٹیڈ کے چیئرمین موتی لال وورا ’قومی آواز‘ آن لائن ایڈیشن کا افتتاح کرتے ہوئے

اس کو حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور،سنہ 2017 کا ہندوستان سنہ 1945 کے ہندوستان سے بہت زیادہ مختلف نظر نہیں آ رہا ہے۔ یقیناً اب ہم آزاد ہیں اور ہماری آزادی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن آزادی کے جو دوسرے لوازمات ہیں وہ آج ضرور خطرے میں ہیں۔مثلاً اس وقت ملک کے لیے صرف اور صرف ہندوتوا نظریہ کو ہی لازم کہا جا رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا جنگ آزادی کے بعد پیدا ہونے والے ’ہندوستانی نظریہ‘ (Idea of India) سے بالکل مختلف ہے۔ سنگھ اور بی جے پی کا ہندوتوا نظریہ ’ایک قومیت، ایک کلچر ، ایک زبان‘ پر مبنی ہے جب کہ جنگ آزادی کی جدوجہد سے پیدا ہونے والا ’ہندوستانی نظریہ‘ جمہوریت و سیکولرزم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی رنگا رنگ تہذیب و تمدن اور ملک کی مختلف زبانوں اور کلچر کی ہم آہنگی کا خیال تھا اور آج بھی ہے۔

ہندوستان ایک گنگا-جمنی تہذیب کی آماجگاہ ہے۔ جواہر لال نہرو کا خیال تھا کہ اگر اس حقیقت سے انکار کیا گیا تو ہندوستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ آج گنگا-جمنی تہذیب کےبجائے ملک پر ہندوتوا تہذیب تھوپنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 1945 میں جواہر لال نہرو نے ’قومی آواز‘ کے ذریعہ ملک کو ’ہندوستانی نظریہ‘ سے روشناس کروایا تھا۔ ویسے ہی 2017 میں انہی نظریات کو ایک بار پھراردو قاری تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔’قومی آواز ‘ ایک بارپھر سے اس مقصد کو پورا کرنے کی لئے کمر بستہ ہے۔

’قومی آواز‘کے آن لائن ایڈیشن شروع کرنے کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت و سیکولرزم کے ساتھ ساتھ ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کو بھی برقرار رکھا جاسکے۔ اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ جواہر لال نہرو کے قدموں پر چلنے کی بھرپور کوشش کرتارہے گا تاکہ ہندوتو انظریہ نے جو خطرہ پیدا کر دیا ہے اس کا مقابلہ کر اس کو شکست دی جا سکے ۔

’قومی آواز‘ کی اشاعت ایک بار پھر سے شروع کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ جیسے سنہ 1945 میں ملک پر بٹوارے اور مسلم لیگ کی سیاست کے سبب فرقہ پرستی کے بادل منڈرا رہے تھے ویسے ہی نفرت کے بادل ایک بار پھر ہندوستانی سیاست میں لہرارہے ہیں ۔ آج پھر بٹوارے کی سیاست کا زور ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سنہ 1945 میں ملک کو بانٹنے کا نعرہ تھا، آج ہندوستانیوں کو ہندو-مسلم کے نام پر بانٹا جا رہا ہے۔ جیسے سنہ 1945 میں نفرت کی آگ نے ہندوستان کو بٹوارے کی کگار پر لا کھڑا کیا تھا، ویسے ہی اس وقت ہندوتوا نظریہ نے نفرت پھیلا کر ملک کو ہندو اورمسلمان کے درمیان نفرت آمیز ماحول پیدا کر دیا ہے۔اس کو آپ دوسرا بٹوارا نہیں تو اور کیا کہیں گے!

آزادی کے 70 برس بعد ہندوستان میں گئو رکشا کے نام پر انسانوں کا قتل ہو رہا ہے۔ آج اقلیتیں خود کو جتنا غیر محفوظ و خائف محسوس کر رہی ہیں ویسا غیرمحفوظ و خائف انھوں نے خود کو آزاد ہندوستان میں پہلے کبھی محسوس نہیں کیاتھا۔ اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ’قومی آواز‘ وہ ذمہ داری پھر سے نبھائے جو ذمہ داری سنہ 1945 اور اس کے بعد بہ حیثیت ایک روزنامہ اس نے نبھائی تھی۔

اس 15 اگست کو ہندوستانی آزادی اور برصغیر کے بٹوارے کو 70 برس پورے ہو جائیں گے۔ آزاد ہندوستان کے اس 70 برس کے سفر میں اگر ہندوستان نے بہت کچھ حاصل کیا تو اب وہ ورثہ خطرے میں ہے۔ ملک پر ایک ایسا نظریہ تھوپنے کی کوشش ہے جو جنگ آزادی کی جدوجہد سے پیدا ہونے والے ’ہندوستانی نظریہ‘ کے لیے خطرہ بن گیاہے۔ نفرت کی آگ میں لپٹا یہ نظریہ ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کے لیے تو خطرہ ہے ہی ساتھ ہی یہ ملک میں ایک بٹوارے کی ایسی دیوار کھڑا کر رہا ہے جو 1947 کی طرح پھر ہندوستان کو نفرت کی آگ میں جھلسا سکتا ہے۔

اس پس منظر میں میڈیا کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایماندارانہ صحافت کے ذریعہ قاری کو اعلیٰ انسانی قدروں کا امین بنا ئے۔ افسوس کہ ہندوستانی صحافت ان اعلیٰ قدروں سے ہٹ کر’ پیڈ نیوز‘ اور ’پروپیگنڈا نیوز‘ کے دور میں پہنچ گئی ہے۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ آج ہندوستانی میڈیا کا ایک بڑا طبقہ نفرت کی صحافت کر رہا ہے۔ یہ موجودہ صحافت کے میدان کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ضرورت اس بات کے ہے کہ ملک میں ایک بار پھر منصفانہ صحافت قائم ہو۔

’قومی آواز‘ ان حالات میں ایک بار پھر سے اپنی صحافتی ذمہ داری نبھانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہے۔ آج کی بدلی دنیا میں یہ شروعات ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعہ ہو رہی ہے لیکن کوشش یہی ہوگی کہ ’قومی آواز‘ جلد ہی ایک اخبار کی شکل میں آپ تک پہنچ سکے۔ہمیں امید ہے کہ ہماری اس چھوٹی سی کاوش میں آپ ویسے ہی ہمارے ہم سفر رہیں گے جیسے آپ ’قومی آواز‘ کے اولیں دور میں تھے۔ ہمارے لیے ’قومی آواز‘ محض ایک میڈیا پلیٹ فارم ہی نہیں بلکہ ’قومی آواز‘ ایک تحریک بھی ہے جس کی شروعات جواہر لال نہرو نے سنہ 1945میں کی تھی۔

ہم امید کرتے ہیں کہ 2017 میں ’قومی آواز‘ کی دوبارہ شروعات کے ساتھ اس تحریک کو بھی ہم آپ کے تعاون سے آگے لے جانے میں کامیاب ہوں گے تاکہ ہندوستان اپنے محور یعنی جمہوریت اور سیکولرزم پر قائم رہےاور یہاں گنگا-جمنی تہذیب کا نشو نما جاری و ساری رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Aug 2017, 8:13 AM