مودی کا دورہ چین: ماسٹر اسٹروک نہیں، کمزوری کی نئی مثال
مودی کی تیانجن شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں شرکت کو سفارتی کامیابی کے بجائے ’سرینڈر‘ قرار دیا جا رہا ہے، جہاں سے وہ کھوکھلے وعدوں کے ساتھ اور بھی کمزور ہو کر واپس لوٹے

وزیر اعظم نریندر مودی اگست کے آخر میں چین کے شہر تیانجن میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گئے۔ سات برس سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد یہ ان کا پہلا دورۂ چین تھا۔ ہندوستانی میڈیا نے، جو مودی کو ایک ماہر حکمت عملی اور چالاک سفارت کار کے طور پر پیش کرنے کا عادی ہے، اس سفر کو بھی ان کی تزویراتی ذہانت کے ایک اور ’ماسٹر اسٹروک‘ کے طور پر دکھانے میں پیچھے نہ رہا۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستانی اشیاء پر 50 فیصد تباہ کن ٹیرف عائد کر دیا اور مسلسل سخت بیانات بھی دیے۔ اس پس منظر میں میڈیا نے شی جن پنگ اور ولادیمیر پوتن کے ساتھ مودی کی تصویروں کو نمایاں کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ دورہ ہندوستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ مودی کا یہ دورہ ہندوستانی سفارت کاری کی کامیابی کے بجائے ان کا ایک ’سرینڈر‘ زیادہ نظر آیا۔ وہ پہلے ہی شدید امریکی دباؤ میں چین پہنچے تھے، اور وہاں جا کر شی جن پنگ کے سامنے جھکے ہوئے دکھائی دیے۔ ان کے ہاتھ کچھ خاص نہیں آیا۔ وہ محض کھوکھلے نعرے، ایک طرفہ وعدے اور ایسی یقین دہانیاں لے کر واپس آئے جن سے ہندوستان کا چین پر انحصار اور بڑھ گیا۔
یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہوا جب ہندوستان پہلے ہی ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ صرف تین ماہ قبل ہی چین کی فوجی امداد کے ذریعے پاکستان نے ہندوستان کو دہائیوں کی سب سے سنگین فوجی ناکامی کا سامنا کرایا۔ چین کے فراہم کردہ جدید لڑاکا طیاروں، میزائلوں اور رئیل ٹائم انٹیلی جنس کی مدد سے ہی پاکستان ہندوستان کے کئی جنگی طیاروں کو مار گرانے کی پوزیشن میں پہنچا۔ اس واقعے نے اس ’روایتی برتری‘ پر سوالیہ نشان لگا دیا جس پر ہندوستان فخر کرتا تھا۔
یہ بحران 2020 کے بعد پیدا ہوا ہے، جب گلوان وادی میں چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہندوستان نے 20 فوجی کھو دئے تھے اور چین کے متنازع سرحدی علاقے پر بڑے پیمانے پر قبضہ جما لیا تھا۔ اس سے پہلے 2017 میں ڈوکلام تنازعے کے بعد سے چین مسلسل حقیقی کنٹرول لائن پر اپنی عسکری تعمیرات میں اضافہ کرتا آیا ہے اور زمینی حقیقت کو اپنے حق میں بدلتا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس نے نہ صرف اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ کے نام سے اپنے سرکاری نقشوں میں شامل کیا بلکہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں کے گاؤں اور قصبوں کے نام یکطرفہ طور پر بدل کر اپنے دعوے مضبوط کیے۔
مودی نے تیانجن جا کر ان تمام زخموں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے نہ تو چین سے جواب دہی طلب کی اور نہ ہی کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کیا۔ الٹا انہوں نے سرحدی تنازعے کو ’دو طرفہ معاملہ‘ مان لیا۔ یہ قدم بظاہر تکنیکی نظر آتا ہے، لیکن دراصل یہ ایک خطرناک سرینڈر تھا۔ اس فیصلے نے ہندوستان کو عالمی حمایت لینے کے امکان سے محروم کر دیا اور اس معاملے کو بیجنگ کی مرضی پر چھوڑ دیا۔
ایس سی او خود بھی ہندوستان کے زخم بھرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکی۔ 2001 میں قیام کے بعد یہ تنظیم آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی انجمن ضرور ہے، لیکن تنازعات کے حل کے میدان میں اس کا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے۔ اس نے کبھی پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی سے روکنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ یہ ہندوستان کی سلامتی کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو ایس سی او نے فوراً مذمتی قرارداد منظور کر لی، لیکن جب کشمیر میں دہشت گردوں نے حملے کیے تو یہ تنظیم خاموش رہی اور پاکستان کا نام تک نہیں لیا۔ ایسے حالات میں ہندوستان تنہا پڑ گیا اور اس نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
’جذبۂ شنگھائی‘ کہلانے والی اصطلاح دراصل ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ یہ ایک ایسا کلب بن چکا ہے جو مغرب مخالف بیانیے پر چلتا ہے، مگر اپنے اراکین کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔
مودی کے لیے مگر یہ سب کچھ ثانوی تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ صدر ٹرمپ کے طعنوں اور بھاری تجارتی دباؤ کے بعد وہ کوئی متبادل دکھا سکیں۔ انہوں نے پوتن سے ملاقات کی، ان کی کار میں سفر کیا، شی جن پنگ کے ساتھ مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا۔ بیجنگ اور ماسکو کے سرکاری میڈیا نے بھی ان مناظر کو خوب اچھالا۔ ہندوستانی میڈیا بھی پیچھے نہ رہا۔ لیکن ان سب تصویروں اور رسمی بیانات کے پیچھے حقیقت یہ تھی کہ ہندوستان کو کوئی ٹھوس فائدہ حاصل نہ ہوا۔ چین نے اپنی سرحدی جارحیت کم کرنے، تجارتی خسارہ گھٹانے یا پاکستان سے فوجی تعلقات پر نظر ثانی کرنے جیسے کسی بھی مطالبے کو ماننے سے انکار کیا۔
روس نے محض پرانے دعوے دہرا دیے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ خصوصی تعلقات رکھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے تیل اور اسلحے کی فروخت سے بھاری منافع کمایا۔ ان معاہدوں کی قیمت ہندوستان ہی کو چکانی پڑی۔ یوں مودی کا یہ دورہ ہندوستان کی معیشت کو سہارا دینے میں بالکل ناکام رہا، جبکہ ٹرمپ کے ٹیرف سے ہونے والا نقصان بدستور قائم رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ مودی ہندوستان کی یکطرفہ تجارتی وابستگیوں کو اور مضبوط کر کے لوٹے۔ چین کے ساتھ تجارت میں خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مودی نے بغیر کسی رعایت حاصل کیے ہوئے اقتصادی تعاون بڑھانے کا وعدہ کیا، جس نے ہندوستان کو ایک ایسے ڈھانچے میں جکڑ دیا جو اس کے وسائل کو ختم کرتا ہے اور بیجنگ کے اثر کو بڑھاتا ہے۔ ایس سی او کے نئے ترقیاتی بینک کا اعلان اس بات کو اور پختہ کرتا ہے کہ ہندوستان ایسے مالیاتی ڈھانچوں میں گھسیٹا جا رہا ہے جہاں چین کا دبدبہ زیادہ ہے۔
عالمی سطح پر مودی نے جو پیغام دیا وہ بھی کم تشویشناک نہیں۔ انہوں نے ایس سی او میں شی جن پنگ اور پوتن کے ساتھ قربت دکھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے پاس واشنگٹن کے علاوہ بھی راستے ہیں۔ مگر اس کا نتیجہ الٹا نکلا۔ ٹرمپ نے فوراً اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور سوشل میڈیا پر ہندوستان کا مذاق بنایا۔ انہوں نے ہندوستان کو امریکہ کا سب سے استحصالی تجارتی شراکت دار قرار دیا اور مودی کی تجاویز کو مذاق کا نشانہ بنایا۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ امریکی منڈیوں پر ہندوستان کس قدر انحصار کرتا ہے اور ٹرمپ کے نزدیک مودی کی حیثیت کتنی معمولی ہے۔
یوں مودی کی بیاناتی حکمت عملی اور عملی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق رہا۔ تیانجن میں انہوں نے ’اسٹریٹجک خود مختاری‘ کی بات کی اور ہندوستان کو چین و روس کے برابر ایک عظیم تہذیب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت میں وہ ہندوستان کو ایک کمزور شراکت دار کے طور پر پیش کر گئے، جو دوسروں کی خوشامد کرتا ہے اور کڑوی گولیاں نگلنے پر مجبور ہوتا ہے۔
شی جن پنگ نے چالاکی سے کہا کہ سرحدی تنازعے کو دوطرفہ تعلقات کی مجموعی تصویر پر غالب نہ ہونے دیا جائے۔ یہ دراصل ایک سفارتی فریب تھا۔ بیجنگ کے لیے سرحدی تنازعہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ہتھیار ہے، جو ہندوستان کو دبانے کے لیے ہمیشہ استعمال ہوتا رہے گا۔ مودی نے اس زبان کو دہرا کر نہ صرف ہندوستانی فوجیوں کی شہادت کو نظرانداز کر دیا بلکہ علاقے کے نقصان کو بھی معمولی بنا کر پیش کر دیا۔
کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا، کیونکہ ٹرمپ کے دباؤ نے انہیں متبادل ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا۔ مگر اصل قیادت کی آزمائش تو اسی وقت ہوتی ہے جب حالات مشکل ہوں۔ تیانجن میں مودی کا طرز عمل ایک ایسے شخص کا عکس تھا جو ڈگمگا رہا ہو۔ انہوں نے ہندوستان کے حق میں عالمی حمایت اکٹھی کرنے کے بجائے ایسے ڈھانچے مضبوط کیے جو ہندوستان کو مزید ہاشیے پر لے گئے۔
انہوں نے قومی مفادات کے بجائے فوٹو شوٹ اور دکھاوے کو ترجیح دی۔ معیشت کو بیجنگ اور ماسکو کے حق میں جھکا دیا، اور ہندوستان کی کمزوری مزید بڑھا دی۔ یہ طرز عمل کسی عالمی رہنما کی سفارت کاری نہیں تھی بلکہ ایک ایسے سیاست دان کی حکمت عملی تھی جو اپنے ملک سے زیادہ اپنی ذاتی شبیہ کے بارے میں فکر مند تھا۔
مودی پچھلے ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے یہ تاثر دیتے آئے ہیں کہ وہ ہندوستان کو ایک عالمی طاقت بنائیں گے۔ لیکن تیانجن کانفرنس نے اس غلط فہمی کو ختم کر دیا۔ دنیا نے ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے بجائے ایک ایسے کمزور ملک کو دیکھا جو امریکی سخت گیری اور چینی ہٹ دھرمی کے درمیان پسا ہوا ہے اور اپنے حجم اور وسائل کو حقیقی اثر میں بدلنے میں ناکام ہے۔
مودی کی ذاتی نٹ برداری شاید اب بھی ان کے گھریلو حامیوں کو متاثر کرے، لیکن عالمی مبصرین ان دکھاوے کے پیچھے کی حقیقت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ایک ایسے رہنما کو دیکھ رہے ہیں جو اپنے ملک کے مفاد کو قربان کر کے مخالفین کے ساتھ تصویریں کھنچواتا ہے۔ جو ’اسٹریٹجک خود مختاری‘ کا دعویٰ کرتا ہے لیکن پہلے سے کہیں زیادہ دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔
سچ یہی ہے کہ مودی کا یہ دورہ کوئی ماسٹر اسٹروک نہیں بلکہ ایک کھلا سرینڈر تھا۔ وہ دباؤ میں تیانجن گئے، جھوٹی مسکراہٹوں کے ساتھ طاقت دکھانے کی کوشش کی، اور جتنا کمزور گئے تھے اس سے زیادہ کمزور ہو کر واپس لوٹے۔ ہندوستان اب بیجنگ کے دباؤ میں زیادہ حساس ہے، روسی تیل پر زیادہ انحصار کرتا ہے اور واشنگٹن سے اپنے تعلقات میں پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہے۔
ہندوستانی میڈیا کی تمام تر خود ستائش کے باوجود، ایس سی او کا یہ اجلاس مودی کی کامیابی کے طور پر نہیں بلکہ ان کی ناکامی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایک ایسا واقعہ جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم نے فوٹو کھنچوانے کو پالیسی سمجھ لیا اور اس عمل میں انہی قومی مفادات سے سمجھوتہ کر لیا جن کی حفاظت کا وہ دعویٰ کرتے آئے تھے۔
(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اوپسلا یونیورسٹی میں تحقیق برائے امن و تنازعات کے پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔