یکطرفہ مغربی انحصار کا خمیازہ! ٹرمپ کے الٹی میٹم سے معاشی خلیج کے دہانے پر ہندوستان
ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستان پر 25 فیصد ٹیرف اور روسی تیل پر پابندیوں کا عندیہ دے کر معاشی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ مودی حکومت کی یکطرفہ امریکی پالیسی نہ صرف روس و چین بلکہ یورپی یونین سے بھی تناؤ کا سبب بن رہی ہے

وزیر اعظم نریندر مودی / Getty Images
چارلس ڈکنز کے مشہور ناول ’اے ٹیل آف ٹو سٹیز‘ کا ابتدائی جملہ ہے- ’یہ بہترین دور تھا‘۔ کچھ یہی مثال ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات پر بھی صادق آتی ہے، جہاں ’دو شہروں کی کہانی‘ کے بجائے ’دو ملکوں کی کہانی‘ ہے۔ یہ بہترین وقت تھا، جب ڈاکٹر منموہن سنگھ ہندوستان کے وزیر اعظم تھے۔ اور اب یہ بدترین وقت ہے، جب نریندر مودی ہندوستانی ریاست کے ’پردھان سیوک‘ ہیں۔
نریندر مودی کی امریکہ سے محبت پرانی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ کشش ان کے لڑکپن سے ہے اور بعض کے مطابق 1993 میں امریکی وزارتِ خارجہ کے زیرِ اہتمام نوجوان قائدین کے ایک پروگرام میں شرکت کے بعد پیدا ہوئی۔ امریکہ کی جانب ان کا جھکاؤ اتنا شدید تھا کہ 2002 کے گجرات فسادات میں ان کے مبینہ کردار کی بنیاد پر دس برس تک ویزہ پابندی کو بھی انہوں نے قابلِ توجہ نہ سمجھا۔
2014 میں مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد مودی صاحب فوراً امریکہ پہنچے اور وہاں امریکی صدور سے بغلگیر ہونے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جیسے وہ سب ان کے دیرینہ رفیق ہوں۔ بارک اوباما نے شائستگی کے ساتھ اشارہ دیا کہ مودی نے گاندھیائی اصولوں کو چھوڑ دیا ہے، جب کہ جو بائیڈن نے نسبتاً محتاط اور تحفظ پسندانہ رویہ اپنایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں مودی کے بے جا جوش کو برداشت کیا لیکن مئی 2020 میں جب چینی فوجی ایل اے سی عبور کر کے ہندوستانی علاقے میں داخل ہوئے، تب ٹرمپ نے نہ تو ’کواڈ‘ کو فعال کیا اور نہ ہی کھل کر ہندوستان کی حمایت کی۔ اس کے بجائے انہوں نے چین اور ہندوستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے دوسرے دور میں مودی کے دوست نہیں رہے۔ جب وہ مودی کو ’اچھا دوست‘ کہتے ہیں، تو اس میں سفارتی چالاکی اور دوہرا پن جھلکتا ہے۔ ٹرمپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مودی کی گھبرائی ہوئی مسکراہٹ اور انکساری جلد ہی جھکنے میں بدل جائے گی۔
حال ہی میں، 30 جولائی کو ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا، ’’ہندوستان ہمارا دوست ہے مگر کئی برسوں سے ہمارا تجارتی توازن منفی رہا ہے کیونکہ وہاں کے ٹیرف دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ سخت غیر مالیاتی تجارتی پابندیاں بھی عائد ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ ہمیشہ سے اپنا زیادہ تر عسکری سازوسامان روس سے خریدتے آئے ہیں اور توانائی کے بڑے خریدار بھی روس و چین کے ساتھ ہیں، ایسے وقت میں جب پوری دنیا چاہتی ہے کہ روس یوکرین میں قتل عام بند کرے۔ یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ لہٰذا، ہندوستان کو یکم اگست سے 25 فیصد ٹیرف اور مذکورہ بالا وجوہات پر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ شکریہ، ماگا!‘‘
یقیناً، مودی حکومت کے لیے امریکہ کی طرف دوڑ کر جانا، جیسا کہ فروری میں ہوا، کوئی فائدہ نہ دے سکا۔ اب ان کے حکام امریکی ہم منصبوں سے نظرثانی کی اپیل کریں گے اور ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے رعایتوں کی پیشکش کریں گے۔ اگر ٹرمپ کا بیان محض دباؤ ڈالنے کا حربہ ثابت ہوتا ہے تو شاید بات بن جائے، ورنہ یہ ہندوستانی معیشت پر کاری ضرب ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستان کا متبادل کیا ہوگا؟ 2024 میں امریکہ ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا، اس کے بعد چین، متحدہ عرب امارات، سنگاپور، سعودی عرب، روس، ہانگ کانگ، جرمنی، انڈونیشیا اور عراق شامل ہیں۔ چین کے ساتھ برآمدات بڑھانا ممکن نہیں، کیونکہ وہ نہ صرف خود شدید حد تک تحفظ پسند ہے بلکہ ’آپریشن سندور‘ کے دوران پاکستان کی کھلم کھلا حمایت بھی کر چکا ہے۔ ایسے میں چینی منڈی سے رسائی کی توقع بے سود ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر آج بھی چین سے مانسروور یاترا کی بحالی کی اپیل کر رہے ہیں۔
دیگر ممالک کی مارکیٹ اتنی وسیع نہیں کہ وہ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی برآمدات کا بوجھ سنبھال سکیں۔ واحد مؤثر متبادل یورپی یونین ہو سکتا ہے، جس میں 27 ممالک شامل ہیں، آبادی 50 کروڑ کے قریب ہے اور فی کس آمدنی چین سے تین گنا زیادہ یعنی 43000 ڈالر سے زائد ہے۔
امریکہ-یورپی یونین تجارتی معاہدہ
حال ہی میں، ٹرمپ اسکاٹ لینڈ میں اپنے نجی گالف کورس پر موجود تھے۔ وہ اگرچہ چھٹیوں پر گئے تھے، مگر اس دوران انہوں نے یورپی یونین کی صدر ارسولا فان ڈیر لاین سے ملاقات کی اور ایک معاہدہ طے کیا۔ طے پایا کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر صرف 15 فیصد ٹیرف عائد کریں گے، جو ٹرمپ کی اصل دھمکی کا نصف تھا۔
یورپی یونین نے عہد کیا کہ وہ ٹرمپ کے باقی دورِ صدارت میں امریکہ سے 750 ارب ڈالر کی توانائی خریدے گا اور ان ریفائنریوں کو یورپ میں ایندھن برآمد کرنے سے روکے گا جو روسی خام تیل کو ریفائن کر کے فروخت کرتی ہیں۔ ہندوستان کی واڈینار میں واقع نائرا انرجی کی 2 کروڑ ٹن سالانہ گنجائش والی ریفائنری اس پابندی کی پہلی شکار بنی، جس میں روسی کمپنی روسنیفٹ کی 49.1 فیصد شراکت داری ہے۔ مقصد روس کی آمدنی کو روکنا ہے تاکہ وہ یوکرین جنگ کو مزید فنڈ نہ دے سکے۔
منموہن سنگھ کی غیرجانبدار خارجہ پالیسی کو ترک کر کے مودی نے خود کو امریکہ کے قریب کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین کو یقین ہو گیا کہ ہندوستان 1993 کے امن معاہدے سے منحرف ہو چکا ہے۔ روس نے ہندوستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا، جبکہ مغربی دنیا کو روس سے قربت کھٹکنے لگی۔ یوں ہندوستان کو ایک طرف کنواں، دوسری طرف کھائی والی کیفیت کا سامنا ہے۔
دوسری طرف، یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر پندرہ سال سے مذاکرات جاری ہیں، مگر مودی حکومت نے اسے بھی نظر انداز کیا۔ حالانکہ اگر ہندوستان یورپی منڈی سے تعلقات تیزی سے بڑھائے تو شاید ٹرمپ کے الٹی میٹم سے ہونے والا نقصان کسی حد تک کم ہو سکے۔
’گراہم فیکٹر‘
ریپبلکن سینیٹر لِنڈسے گراہم، جو جنوبی کیرولینا سے تعلق رکھتے ہیں، ایک مرتبہ ہندوستان کو امریکی مصنوعات پر بلند ٹیرف لگانے والا بدترین ملک قرار دے چکے ہیں۔ اب وہ امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کرنے جا رہے ہیں جس کے تحت روسی تیل خریدنے والے ممالک پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
اگر یہ قانون منظور ہو گیا تو ٹرمپ کی دھمکی واضح حقیقت بن جائے گی۔ ہندوستان نے روسی خام تیل خرید کر اسے ریفائن کر کے عالمی منڈی میں بیچنے کو آمدنی کا بڑا ذریعہ بنا رکھا ہے، اور ملک کے ادائیگی کے توازن کی صورتِ حال اسی پر کافی حد تک انحصار کرتی ہے۔
جولائی میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بتایا کہ وہ سینیٹر گراہم سے رابطے میں ہیں اور ہندوستان کے تیل و سلامتی سے متعلق تحفظات ان تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ مگر گراہم نے کھلے الفاظ میں کہا، ’’اگر چین، ہندوستان اور برازیل جیسے ممالک روسی تیل خریدتے رہے اور اس جنگ کو جاری رکھنے میں مدد دیتے رہے، تو ہم تمہاری معیشت تباہ کر دیں گے، کیونکہ یہ خونی تجارت ہے!‘‘
اگرچہ گراہم اور ٹرمپ یوکرین کے معاملے پر مختلف سوچ رکھتے ہیں، گراہم یوکرین کے شدت سے حامی ہیں جبکہ ٹرمپ روس کے تئیں نسبتاً نرم ہیں لیکن دونوں کی پالیسیاں اس وقت ہندوستان پر دباؤ ڈالنے کی سمت میں بڑھ رہی ہیں۔
آخر میں، ٹرمپ نے اسکاٹ لینڈ میں اپنے قیام کے دوران روس کو 10 تا 12 دن کا غیر رسمی الٹی میٹم دیا کہ وہ یوکرین کے ساتھ کم از کم عارضی جنگ بندی پر پہنچے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہندوستان کے لیے بیک وقت امریکہ، روس، چین اور یورپ کو خوش رکھنا ایک نازک توازن ہے، جسے برقرار رکھنا شاید مودی حکومت کی موجودہ حکمتِ عملی سے ممکن نہ ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔