مودی اور اڈانی، یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟...اعظم شہاب

’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران ہزاروں لوگوں نے جو سوال راہل گاندھی سے کیا تھا، انہوں نے وہی پارلیمنٹ میں اٹھائے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے جواب نہ تو ’پردھان سیوک‘ کے پاس ہیں اور نہ ہی بی جے پی کے پاس

<div class="paragraphs"><p>اڈانی سے ہاتھ ملاتے وزیر اعظم مودی / Getty Images</p></div>

اڈانی سے ہاتھ ملاتے وزیر اعظم مودی / Getty Images

user

اعظم شہاب

راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں گزشتہ کل اڈانی اور پردھان سیوک مودی کے رشتے پر بی جے پی کو جو دھوبی پچھاڑ لگائی اسے دیکھ کر مشہور اور طویل ترین ٹی وی سیریل ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘ کی یاد آ جاتی ہے۔ اس سیریل کی کہانی جس طرح ’نیتک‘ اور ’اکشرا‘ کے رشتے کے گرد گھومتی ہے اسی طرح آج کل پورے ملک کی سیاست اڈانی اور پردھان سیوک صاحب کے رشتے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس سیریل کی 3000 اقساط دیکھنے کے بعد بھی جس طرح آخر تک ناظرین کے سامنے ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟‘ کا سوال جوں کا توں برقرار رہتا ہے اسی طرح آج سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک مودی اور اڈانی کے رشتے پر اٹھ رہے سوال کا کوئی جواب نہیں مل رہا ہے۔

پارلیمنٹ میں جس وقت راہل گاندھی پردھان سیوک اور اڈانی کے رشتوں کی پرتیں کھول رہے تھے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حکمراں محاذ کے صبر کا باندھ اب ٹوٹاکہ تب ٹوٹا۔ کئی بار تو ایسا بھی لگا کہ کہیں پردھان سیوک کی بے جا مدافعت میں کسی ممبر پارلیمنٹ کو کہیں غش ہی نہ آ جائے۔ ایک پگڑی والے صاحب کے تو منھ سے جھاگ تک نکلنے لگا تھا۔ پردھان سیوک سے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں کم ازکم عمر کا تو لحاظ رکھنا چاہئے، کیونکہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ سبھی کی چھاتی 56 انچ کی ہو۔ پھربھی ایسے ہی مواقع چونکہ وفاداری ثابت کرنے کے لیے نہایت موزوں بھی ہوا کرتے ہیں، اس لیے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہا۔ ان کی تمام تر کوشش راہل گاندھی کو خاموش کرانے میں تھیں لیکن وہ بغیر کسی کی پرواہ کیے، اپنی بات کہتے رہے اور آخر تک اس پر جمے بھی رہے۔


راہل گاندھی نے اپنی پیدل یاترا کو تپسیا کہا تھا اور ایسا لگتا ہے ان کی یہ تپسیا سپھل بھی ہو گئی۔ راہل کے پیدل مارچ کا مرکزی موضوع نفرت کے خلاف جہاد تھا۔ شیش محل میں رہنے والے بہت سے لوگ یہ سوچتے تھے کہ نفرت کہاں ہے؟ نفرت کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ وہ نہ نظر آتی ہے اور نہ ہی اسے ناپا اور تولا جاسکتا ہے لیکن اِدھر یاترا ختم ہوئی اور اُدھر بی بی سی کی فلم آ گئی جس نے بتا دیا نفرت اِسے کہتے ہیں؟ یہ پہلے گجرات تک محدود تھی اب پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ راہل گاندھی پچھلے دو سالوں سے بارہا ’ہم دو ہمارے دو‘ کی سرکار پر تنقید کرتے تھے لیکن کوئی کان نہیں دھرتا تھا۔ لوگ کہتے تھے یہ تو نہ ’کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ والے چوکیدار کی سرکار ہے لیکن اب ان چاروں میں سے ایک بے نقاب ہو گیا۔ ملک کا بچہ بچہ یہ کہہ رہا ہے کہ چوکیدار کھاتا بھی ہے اور کھلاتا بھی ہے۔ صدر مملکت کے خطاب کا جواب دیتے ہوئے راہل گاندگی نے مودی اور شاہ کی تصویر دکھا کر جو سوالات کیے ہیں اس نے بی جے پی کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔

راہل نے اپنی 45 منٹ کی تقریر کا آغاز ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران لوگوں کے سوالات کے جوابات سے کیا۔ پھر ان سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے گوتم اڈانی کے معاملے پر آئے۔ انہوں نے کہا ’2014 میں گوتم اڈانی دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں 609 ویں نمبر پر تھے، چند سالوں میں پتہ نہیں کیا جادو ہوا کہ وہ دوسرے نمبر پر آ گئے۔‘ ان کے اس بیان پر فوراً ہی اپوزیشن ممبران نے مودی کو بھارت بھاگیہ ودھاتا قرار دینے والا بی جے پی کا وہ نعرہ لگا دیا کہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔ کہاں تو یہ نعرہ بی جے پی والوں نے ہر امکان کو مودی سے مربوط کرنے کے لیے اچھالا تھا لیکن کہاں یہ اب اڈانی کو دنیا کا دوسرا امیرشخص بنانے میں مودی کے رول پر لگ رہا ہے اور ایسی جگہ لگ رہا ہے، جسے ملک کا پارلیمنٹ کہا جاتا ہے، اسے ہی کہتے ہیں پانسہ کا الٹا پڑنا۔


راہل گاندھی کی تقریر کے دوران حکمراں محاذ اس بات پر معترض رہا کہ وزیر اعظم پر الزامات نہ لگائے جائیں۔ راہل گاندھی کے بیان کو بے جا الزام کہا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ان الزامات سے متعلق ثبوت پیش کیے جائیں لیکن یہ سوال کرنے والے بی جے پی کے ممبرانِ پارلیمنٹ شاید یہ بھول گئے کہ راہل گاندھی جو باتیں کہہ رہے ہیں یا جو الزام عائد کر رہے ہیں وہ گزشتہ دس دنوں سے پورا ملک عائد کررہا ہے اور ان الزامات کے ثبوت سے سوشل میڈیا اٹا پڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غصے میں آدمی کی عقل ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ راہل گاندھی کی تقریر پر اعتراض کرنے والے پارلیمنٹ میں آپے سے باہر ہو کر دراصل اسی کہاوت کا عملی مظاہرہ کر رہے تھے۔ اب ان اعتراض کرنے والوں کو بھلا کون سمجھائے کہ یہ راہل گاندھی کے الزامات کا ثبوت ہی ہے جس نے محض دس دنوں میں دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص کو گھسیٹ کر 17ا ویں نمبر پہنچا دیا۔

لیکن سب سے مضحکہ خیز اعتراض تو روی شنکر پرساد کا تھا، جنہیں پردھان سیوک صاحب نے جب سے ’ایکانت‘ میں بھیجا ہے، کوئی پوچھ ہی نہیں رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں جیسے ہی انہیں پردھان سیوک سے اپنی وفاداری ظاہر کرنے کا موقع ملا، انہوں نے لپک لیا اور کہا کہ ’راہل نے پی ایم مودی پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔ لیکن یہ باتیں کہتے ہوئے مارے ہڑبڑاہٹ میں سیلف گول ہی کر گئے۔ یہ باتیں کہہ کر دراصل روی شنکر پرساد نے خود ثابت کر دیا کہ راہل گاندھی مودی اور اڈانی کے رشتے کے بارے میں جو باتیں کہہ رہے ہیں وہ سراسر درست ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ایسی باتوں سے پردھان سیوک کا دفاع ہرگز نہیں کرتے جنہیں خود ان کی ہی پارٹی کے لوگ انتقامی سیاسی کارروائی کہتے ہیں۔ اسے ہی کہتے ہیں بوکھلاہٹ کہ جب آدمی اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے دوسرے مفروضے کا سہارا لیتا ہے پھربھی ناکام ہو جاتا ہے۔


راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی سے جو 7 سوالات کیے ہیں، ان کے جواب نہ تو وزیر اعظم کے پاس ہیں اور نہ ہی بی جے پی کے پاس۔ یوں بھی وزیر اعظم نے ایک بار خود کہا تھا کہ وہ کاروباری آدمی ہیں اور اڈانی کے معاملے میں انہوں نے ثابت بھی کر دیا کہ پوری دنیا میں گھوم کر وہ صرف اڈانی کے لیے کاروبار ہی کرتے ہے ہیں لیکن یہ کاروبار جب ملک کی سالمیت پر سوالیہ نشان لگانے لگے، جب ملک کی خارجہ پالیسی اسی کاروبار کے گرد گھومنے لگے اور سب سے بڑھ کر جب ملک کے کروڑوں لوگوں کا محنت سے کمایا ہوا پیسہ اس کاروبار پر قربان ہونے لگے تو سوال تو اٹھےگا ہی۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران ہزاروں لوگوں نے یہی سوال راہل گاندھی سے کیا تھا اور گزشتہ کل یہی سوال راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں اٹھا دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */