سیفی جیسی لاکھوں مسلم لڑکیاں ترقی کی نئی منزلیں چھونے کو تیار

سفر کے درمیان میرے ذہن میں کئی باتیں گھومنے لگیں اور میں سوچنے لگا کہ سیفی جیسی گاؤں دیہات کی لڑکی اب چہار دیواری توڑ کر زندگی کے جدید تقاضوں سے جدوجہد کرنے کے لیے کھڑی ہو چکی ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

ظفر آغا

ابھی پچھلے ہفتے مجھ کو اپنے آبائی وطن الٰہ آباد جانا پڑا۔ صحت اور عمر کے تقاضوں کے سبب مجھ کو اب وہیل چیئر ایئرپورٹ پر لینی پڑتی ہے۔ چنانچہ میں نے دہلی اور الٰہ آباد دونوں ایئرپورٹ پر وہیل چیئر مانگی تھی اور دونوں ہی جگہ مجھ کو مہیا کروا دی گئی۔ الٰہ آباد ایئرپورٹ پر میرے لیے ایک نوجوان لڑکی وہیل چیئر لے کر آئی۔ وہ میری صحت دیکھ کر میرا بہت زیادہ خیال رکھ رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے، تو اس نے بتایا کہ اس کا نام سیفی ہے۔ الٰہ آباد ایئرپورٹ پہلے کبھی شہر کے باہر ایک دیہات میں ہوا کرتا تھا۔ اب اس کے ارد گرد درجنوں گاؤں-دیہات شہر کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان دیہاتوں میں مسلم آبادی بھی اچھی تعداد میں ہوتی تھی اور آج بھی ہے۔ میں نے اس سے اس کے گاؤں کا نام پوچھا تو اس نے وہ بھی بتایا۔ میں جب گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اس کو بہت دعائیں دیں۔ سیفی واپس ایئرپورٹ میں چلی گئی اور میں اپنے راستے چل پڑا۔

خیر، بات آئی گئی ہو گئی۔ ہفتہ بھر بعد میں دہلی کے لیے الٰہ آباد ایئرپورٹ پہنچا تو وہیل چیئر لیے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ میں نے اس سے بھی اس کا نام پوچھا۔ وہ بولی آپ پہچانے نہیں، میں عظمیٰ ہوں۔ مجھے فوراً یاد آ گیا کہ چند ماہ قبل جب میں الٰہ آباد آیا تھا عظمیٰ نام کی لڑکی نے مجھے ہوائی جہاز تک پہنچایا تھا۔ ایئرپورٹ پر خاصی بھیڑ بھاڑ تھی۔ عظمیٰ مجھ کو ایئرپورٹ سے اندر لائی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کو کہیں اور جانا پڑا اور حسن اتفاق سمجھیے کہ اب مجھ کو ہوائی جہاز میں سیفی مل گئی۔ سیفی نے ہوائی سفر شروع ہونے سے پہلے میرے لیے سارے کام کر دیے۔ جب سارے کام مکمل ہو گئے تو میں نے اس کو بہت دعائیں دیں۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ وہ انگریزی کا آن لائن کورس کرنا چاہتی ہے۔ میں نے کہا میں اس سلسلے میں ساری انفارمیشن مہیا کرنے کے بعد اطلاع کر دوں گا۔ سیفی مجھے جہاز میں سوار کر واپس کسی دوسری سواری کو لانے کے کام میں مصروف ہو گئی۔ سفر کے درمیان میرے ذہن میں دو باتیں گھومنے لگیں۔ اولاً، سیفی جیسی گاؤں دیہات کی لڑکی اب چہار دیواری توڑ کر زندگی کے جدید تقاضوں سے جدوجہد کرنے کے لیے کھڑی ہو چکی ہے۔ دوسرا، اس کو یہ بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ ترقی کی پہلی سیڑھی انگریزی ہے۔ سیفی کو یہ بات کسی نے بتائی تو نہ ہوگی۔ اس کو یہ بات ایئرپورٹ کی نوکری کے تجربے سے سمجھ میں آئی۔ اب وہ یہ تو دیکھ ہی رہی تھی کہ جو انگریزی جانتے ہیں، وہ بابوؤں کی طرح کاؤنٹر کے پیچھے سکون سے بیٹھے ہیں۔ اور اس کی طرح انگریزی سے نابلد ایئرپورٹ جیسی جگہ پر مزدوری جیسا ہی کام کر رہے ہیں۔


سیفی کے اندر انگریزی پڑھنے کا جو جذبہ پیدا ہوا، اس بیچاری کو تو یہ بھی شاید نہیں پتہ ہو کہ یہی بات سب سے پہلے سر سید احمد خان کے ذہن میں آئی تھی۔ مغلوں کے زوال کے بعد سر سید احمد خاں صاحب برصغیر ہند میں پہلے شخص تھے جن کو یہ بات سمجھ آئی کہ اب دنیا بدل چکی ہے۔ مغل زوال کے شکار اس لیے ہو گئے کہ وہ سائنس اور انڈسٹریل انقلاب سے نہیں جڑے۔ چنانچہ ان کو یہ فکر ہوئی کہ مغلوں کے زوال کے بعد اگر مسلمان کو اس دنیا سے جوڑنا ہے تو انھیں سائنس اور انڈسٹری سے جوڑا جائے۔ یہ بات ممکن نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ وہ جدید تعلیم سے نہیں جڑیں۔ اسی سے پورے یورپ کی کایا پلٹ ہوئی ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ انگریزی زبان پر قدرت حاصل نہ کر لے۔ چنانچہ وہ اس دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے انگلینڈ گئے جہاں انھوں نے نئی دنیا دیکھی اور انگریزی زبان سیکھی۔

ایک سال انگلینڈ میں رہ کر اور جدید دنیا کو سمجھ کر جب سر سید لوٹے تو انھوں نے مسلم سماج میں ریفارم کی خاطر علی گڑھ کو اپنا مسکن بنایا۔ سر سید نے سب سے پہلے کوئی تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا، انھوں نے علی گڑھ میں سب سے پہلے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اور اپنا مشہور رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ شروع کیا جس کے ذریعہ سائنس کی نئی دنیا سمجھانی شروع کی۔ اس کے بعد انھوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا جہاں انگریزی اور سائنس دونوں ہی پڑھائے جانے لگے۔

افسوس کہ سر سید کی اس شروعات کی زبردست مخالفت ہوئی۔ علی گڑھ میں اور مغلوں کی زوال شدہ زمیندارانہ نظام سے جڑے مسلم سماج کے اکابرین تک نے سر سید کی مخالفت کی۔ حد تو تب ہوئی جب علمائے دین نے ان کے خلاف قتل تک کا فتویٰ جاری کر دیا۔ ساتھ ہی علمائے دین نے انگریزی تعلیم کو کفر قرار دے دیا۔


بس یہی بات قیامت ہو گئی۔ ایک تو مسلمان یوں ہی ہارا بیٹھا تھا، اوپر سے اس نے یہ طے کر لیا کہ وہ جدید تعلیم جس کا ذریعہ انگریزی زبان تھی، وہ بھی نہیں سیکھے گا۔ مسلمان کے علاوہ ہندوؤں نے جلد ہی انگریزی سیکھی اور نئی تعلیم کا لبادہ اوڑھ کر آگے نکل گئے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہندو آج حاکم ہے اور اس ملک پر حکومت کرنے والا مسلم اب کم و بیش غلام کی زندگی گزار رہا ہے۔

مگر سوال تو یہ ہے کہ مسلمان کیوں جدید تعلیم ہی نہیں بلکہ ہر اس شے کو اپنا دشمن سمجھتا رہا جس کے ذریعہ وہ ترقی کر سکتا تھا۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مسلم قوم جس نے تقریباً پوری ایک صدی دنیا پر حکومت کی، جب وہ انگریزوں سے ہارا تو نفسیاتی طور پر شاید یہ بات گھر کر گئی کہ انگریز کیا اور اس کی اوقات کیا! بس انگریز کی دشمنی کے ساتھ ساتھ انگریز کی ہر شے سے دشمنی ٹھان لی۔ بعینہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا۔

سیفی اور عظمیٰ جیسی لڑکیوں اور لڑکوں کو محض تجربہ سے یہ سمجھ میں آیا ہے کہ انگریزی ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔ مگر وہ اب بھی یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ وہ جلد از جلد کس طرح انگریزی پر دسترس حاصل کریں۔ سیفی کا خیال درست ہے کہ کچھ نہیں تو آن لائن کورس کرنے سے اس کی مشکل دور ہو جائے گی، اور کچھ ایسا ہی قدم انگریزی سیکھنے کے لیے دیگر بچوں کو بھی اٹھانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔