مودی کی اندھی تقلید کا خمیازہ بھگت رہے مہاجر ہندوستانی... ابھے شکلا
جن ممالک میں ہندوستانیوں کو بڑے احترام سے دیکھا جاتا تھا، وہاں اچانک ان کے خلاف ماحول یوں ہی نہیں بن گیا۔ مہاجر ہندوستانیوں کو انہی کی دوا کا مزہ چکھنا پڑ رہا ہے۔

حال ہی میں میرے ایک واقف کار ویتنام گئے تھے۔ ’دی نانگ برج‘ پر ان کی نظر ہندوستانی سیاحوں کے ایک بڑے گروپ پر پڑی۔ وہ ہندوستانی پرچم لہرا رہے تھے اور (بلاوجہ ہی) ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ حیران و پریشان ویتنامی ان کی طرف ناک بھوں چڑھا کر دیکھ رہے تھے۔ بیرونِ ملک جارحانہ قوم پرستی کا یہ غیرضروری مظاہرہ ہمیں سچے وطن پرستی کے بارے میں کچھ باتیں سکھا سکتا ہے۔ اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ خاص طور پر مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کے اینگلوفون ممالک میں (جہاں صرف انگریزی نہیں بولی جاتی) وسیع ہندوستانی تارکین وطن کو اچانک شدید دشمنی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، چاہے وہاں کھلے عام امیگریشن مخالف نسل پرستی نہ ہو اور ’واپس جاؤ!‘ کے نعرے نہ لگ رہے ہوں۔
آئرلینڈ، فرانس، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، حتیٰ کہ عموماً نرم مزاج سمجھے جانے والے نیوزی لینڈ میں بھی ہندوستانیوں (شہریوں، رہائشیوں، سیاحوں) کو بلا کسی واضح وجہ گالی گلوچ اور مار پیٹ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ تو قتل بھی کیے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ، ڈونالڈ ٹرمپ تو اس سے کہیں آگے نکل گئے اور وہ سینکڑوں ہندوستانیوں کو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر واپس بھیج چکے ہیں، جسے وزارتِ خارجہ موتیا بند زدہ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پا رہی۔ جس برادری کو اب تک عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور جسے کامیاب، پُرسکون، قانون کا پاسدار سمجھا جاتا تھا، اس کے ساتھ اچانک اس بدلتے رویّے کی وجہ کیا ہے؟ کیوں ہندوستانی اب بیرونِ ملک تقریباً خارج ہوتے جا رہے ہیں؟
ششی تھرور اور ویر سنگھوی جیسے لکھنے والوں نے اس مسئلہ کو اٹھایا ہے اور اس دشمنی کی وجوہ بھی شمار کرائی ہیں۔ مثلاً تارکینِ وطن کی معاشی ترقی سے حسد، یہ خیال کہ وہ مقامی لوگوں کی ملازمتیں چھین رہے ہیں، معاشرے میں گھلنے ملنے سے گریز، خود کو ایک سیاسی قوت کے طور پر پیش نہ کر پانا، پالیسی پر اثر انداز ہونے یا ہندوستان سے متعلق اہم امور پر رائے دینے کی عدم صلاحیت۔ شبہ نہیں کہ یہ سب وجوہ درست ہیں، لیکن ان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ دہائیوں تک بیرونِ ملک لوگوں اور حکومتوں کے ساتھ پُرامن طریقے سے رہنے کے بعد، گزشتہ چند برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ اچانک ان کے خلاف ردِ عمل بھڑک اٹھا؟ مجھے لگتا ہے اصل وجہ کے سب سے قریب ترین اشارہ میرے بیچ میٹ اور سابق ٹی ایم سی رکنِ پارلیمنٹ جواہر سرکار نے 9 اکتوبر 2025 کو ’دی وائر‘ میں شائع ایک مضمون میں دیا ہے۔ ان کے مطابق پریشان کن اصل وجوہ 2014 میں بی جے پی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد تارکینِ وطن کی سیاست کاری اور ہندوتوا رنگ میں رنگے جانے میں پوشیدہ ہیں۔ یہ گہری تحقیق کا موضوع ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقیقت کے بہت قریب ہے۔ ویتنام کا قصہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
2014 سے ہی مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کے تارکین وطن نے خود کو مودی اور ان کی سخت گیر سیاست سے بہت قریب کر لیا ہے۔ اس پر غور کیا جانا چاہیے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ اس لیے نہیں جڑے کہ انہوں نے اُن مسائل پر ہمیشہ خاموشی اختیار کیے رکھی جو ان کے اصل اور منقولہ وطن کے درمیان تعلقات خراب کرتے ہیں۔ مثلاً ٹیریف، امیگریشن، ویزا، ملک بدری، نسل پرستی۔ اس کے بجائے وہ ’ہاؤڈی مودی!‘ کے چیئر لیڈر بن گئے ہیں۔ گویا ان سے پہلے کوئی وزیر اعظم نہ آیا ہو اور نہ ان کے بعد آئے گا۔ کچھ عرصے تک تو ایسی حرکتوں کو برداشت کیا گیا، لیکن اب اس پر کھلا ردِعمل سامنے آ رہا ہے اور وزیر اعظم کی عالمی ساکھ اور ریٹنگ میں گراوٹ کے ساتھ یہ ردِعمل اور بھی تیز ہو گیا ہے۔
نریندر مودی کے عالمی رہنما ہونے کا ہالہ اور وشو گرو ہونے کا دعویٰ تیزی سے بکھر رہا ہے۔ انسانی حقوق کے معاملے میں مودی کا مایوس کن ریکارڈ، ملک میں ’انتخابی تاناشاہی‘ کی کیفیت، اظہارِ رائے کی آزادی، میڈیا کی آزادی، مساوات، ماحولیات، وفاقیت، عدلیہ اور اداروں کی آزادی کے حوالے سے خراب درجہ بندی، فلسطین اور یوکرین جنگ پر ہماری موقع پرستانہ اور بے اصول پالیسیاں، اسرائیل کی حمایت اور اس کے ساتھ شراکت... ان سب نے مودی کو نیتن یاہو، ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان اور ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ سخت دائیں بازو کے خیمے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارے تارکینِ وطن کی اندھی مودی پرستی اب انہیں نقصان دے رہی ہے اور دنیا بھر میں انہیں ناپسند کیا جانے لگا ہے۔
یہاں بھی ایک افسوس کا مقام ہے۔ ہمارا ہندوستانی تارک وطن، خاص طور پر امریکہ میں، مودی کی سیاست... یعنی انتہا درجے کی قوم پرستی، اقلیتوں پر جبر، وفاقیت اور اقتدار کی شراکت کے تصور کی بے اعتنائی، منمانا فیصلہ، ریاستی مشینری اور پولیس کا غلط استعمال، مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ویزا اور او سی آئی کارڈ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے (کیا آپ کو تولین سنگھ کے بیٹے آتش تاسیر اور پروفیسر فرانسیسکا اورسینی کے واقعات یاد ہیں؟) کا زبردست حمایتی رہا ہے۔ یہی تمام ’خصوصیات‘ اور ہتھکنڈے تو ٹرمپ کے بھی ہیں اور امریکہ میں ہندوستانیوں کے خلاف اختیار کیے جا رہے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ سیاح ہیں، فطری شہری ہیں، قانونی یا غیر قانونی تارکینِ وطن ہیں، طلبا ہیں یا پھر گرین کارڈ ہولڈر۔ ٹومی رابنسن (برطانیہ)، گیرٹ وائلڈرز (نیدرلینڈ)، چارلی کرک اور ٹرمپ جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ تارکینِ وطن اب واپس گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ جیسا کہ ایک یوٹیوبر نے حال ہی میں ایک تارکِ وطن سے پوچھا کہ ’’کیسا لگ رہا ہے جب بیرونِ ملک آپ کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے؟‘‘
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ مہاجر ہندوستانیوں نے ’ہندو سمراٹ‘ کے نفرت انگیز ہندوتوا اور اسلافوبیا کو پوری عقیدت کے ساتھ اپنا لیا ہے۔ وہ ہندو تہواروں، یومِ آزادی، مودی کے دوروں پر اس کا شدت کے ساتھ مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور ایسی سرگرمیوں کو ’ہندو انتہا پسندی‘ جیسا بنا دیتے ہیں۔ یہ تاثر کناڈا، امریکہ حتیٰ کہ آسٹریلیا میں اجیت ڈووال کی ’ہاٹ پرسیوٹ‘ پالیسی سے اور مضبوط ہوا ہے۔
ایسے کھلے عام جارحانہ مذہبی رویے انہیں وہاں راس نہیں آتے جہاں مذہبی اعتقادات کو سڑکوں پر جارحانہ انداز میں پیش نہیں کیا جاتا اور مذہب کو سماجی ترجیحات کی آخری صف میں رکھا جاتا ہے۔ جب میں یہ لکھ رہا ہوں، برطانیہ، نیو جرسی اور آسٹریلیا کے شہروں میں مہاجر ہندوستانیوں کی دیوالی تقریبات کی وجہ سے شور اور فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ کوڑا کرکٹ پھیلا اور پٹاخوں سے آگ لگنے کے خدشات پیدا ہو گئے۔ کچھ مقامات پر پولیس بھی طلب کرنی پڑی۔
مذہبی شدت پسندی کا حیران کن مظاہرہ کرتے ہوئے ’اسٹاپ ہندو جینوسائیڈ‘ نامی تنظیم نے گزشتہ ہفتے نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر احتجاج کیا، جس میں ہندوستان کے چیف جسٹس کی مذمت کی گئی اور انہیں ہندو مخالف انتہا پسند قرار دیا گیا! یہ گھٹیا اور فحش مظاہرہ حال ہی میں ایک ہندو دیوتا سے متعلق مقدمے میں ان کی ایک مبینہ تبصرہ کے خلاف کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اگلے چیف جسٹس کے لیے نامزد جسٹس سوریہ کانت سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججوں پر بھی اُن کے مبینہ ’ہندو مخالف‘ فیصلوں کی وجہ سے تنقید کی۔ دہلی میں شاید یہ معمول کی بات ہو، لیکن ان ممالک کی عوام اور حکومتیں اسے بالکل مختلف زاویے سے دیکھتی ہیں۔
سبھی تارکین وطن ایسے نہیں ہوں گے، لیکن یہ نہ بھولیں کہ پوری ٹوکری کو خراب کرنے کے لیے ایک سڑا ہوا سیب ہی کافی ہوتا ہے۔ سمجھ دار لوگوں کی سوچی سمجھی خاموشی، اپنے درمیان موجود ان بے شرم عناصر کو بے نقاب کرنے میں ان کی جھجک، پورے تارکین وطن کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔ اختصار یہی ہے کہ بیرون ملک رہنے والے ہندوستانی اجتماعی طور پر ہمارے ملک کی اُس شبیہ کو برباد کر رہے ہیں جسے ان کے پیش روؤں نے بڑی محنت سے بنایا تھا، انہیں بری سیاست اور مذہبی انتہاپسندی سمیت ہندوستان کی ہر چیز کو اپنا کر ملک چھوڑنے کے احساسِ جرم کا ’کفارہ‘ کرنا بند کرنا ہوگا۔ انہیں اب اپنی ہی دوا کا ذائقہ چکھنا پڑ رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس دوا اور اسے لکھنے والے ’ڈاکٹر‘ دونوں سے جان چھڑا لی جائے۔
(ابھے شکلا سبکدوش آئی اے ایس افسر ہیں، یہ https://avayshukla.blogspot.com سے لیے گئے ان کے مضمون کی ترمیم شدہ شکل ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔