جنگ کے سوداگر خوب فائدے میں!... اشوک سوین

دوسری عالمی جنگ کے بعد اِس وقت دنیا میں جنگی محاذ سب سے زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں اسلحہ بنانے والی کمپنیاں خوب منافع کما رہی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>جنگ کی فائل تصویر، آئی اے این ایس</p></div>
i
user

اشوک سوین

جون 2025 میں ’اُپسالا کنفلکٹ ڈیٹا پروگرام‘ (یو سی ڈی پی) نے اطلاع دی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب سے اس نے ڈاٹا اکٹھا کرنا شروع کیا، تب سے ممالک کے درمیان ہونے والے تنازعات کی تعداد آج اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ 2024 میں 61 فعال تنازعات درج کیے گئے، جن میں سے 11 مکمل جنگوں میں بدل گئے۔ 1945 کے بعد سے تنازعات کا یہ بے مثال دور تشویش ناک ہے۔ یہ رجحان صرف سیاسی عدم استحکام یا ناکام سفارت کاری کی مثال نہیں، یہ اُس عالمی جنگ کی معیشت کے دھاگے بھی کھولتا ہے جو ایسی صنعتی اور مالیاتی نظام کو فروغ دیتی ہے جو موت اور تباہی کو بے تحاشہ منافع میں بدل دیتی ہے۔

جنگ ہمیشہ سے چند لوگوں کے لیے منفعت بخش رہی ہے۔ ہمارے دور کی خاص بات یہ ہے کہ اس منافع کا حجم بے پناہ ہو گیا ہے، یہ بلند نظریات کے پردے میں چھپ جاتا ہے اور اس طرح کمائی کا یہ طریقہ عام بات سمجھا جانے لگا ہے۔ یہاں تک کہ اس منافع کی تعریف کی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی دفاعی کمپنیاں (خاص طور پر امریکی کمپنیاں) تنازعات کے بڑھنے کے ساتھ ریکارڈ منافع کما رہی ہیں۔


اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 100 بڑی اسلحہ اور فوجی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے 2023 میں 632 ارب ڈالر کا کاروبار کیا، جو ایک سال قبل کے مقابلے میں 4.2 فیصد زیادہ ہے۔ اس کا تقریباً ایک تہائی حصہ امریکی کمپنیوں سے آیا اور ’بِگ فائیو‘ (لاک ہیڈ مارٹن، آر ٹی ایکس، نارتھروپ گرومین، بوئنگ اور جنرل ڈائنامکس) اب بھی پنٹاگون کے اخراجات کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

2020 سے 2024 کے درمیان ان 5 کمپنیوں کو مجموعی طور پر 771 ارب ڈالر کے ٹھیکے ملے، جو امریکی محکمۂ دفاع کے مجموعی ٹھیکوں کا ایک تہائی ہے۔ ویسے اس محکمہ کا نام اب ’امریکی محکمۂ جنگ‘ بن چکا ہے۔ انہی کمپنیوں کے تیار کردہ اسلحوں کے ذریعہ یوکرین اور اسرائیل دونوں کو امریکی فوجی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ یعنی مشرقی یورپ اور غزہ میں جنگیں نہ صرف جغرافیائی سیاسی بحران بن رہی ہیں بلکہ ’آسمانی منافع‘ کا ذریعہ بھی۔


2024 میں امریکہ نے 95 ارب ڈالر کی امداد کے لیے ایک بل پاس کیا جسے اتحادیوں کے ساتھ یکجہتی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ تاہم، اس رقم کا بڑا حصہ کبھی امریکی سرزمین سے باہر گیا ہی نہیں۔ یہ رقم اسلحہ بنانے والوں کو دے دی گئی تاکہ بیرونِ ملک بھیجے جانے والے میزائل، توپیں اور ڈرون دوبارہ تیار کیے جا سکیں۔ نتیجتاً لاک ہیڈ مارٹن اور آر ٹی ایکس دونوں کے شیئرز کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس ماڈل میں جنگ سرمایہ کاری کا موقع بن جاتی ہے۔ جنگ جتنی طویل ہو، فائدہ اتنا زیادہ۔ دنیا بھر کے تمام تنازعات میں فاتح صرف اسلحہ ساز ہوتے ہیں۔ جب جنگ ایک بہترین کاروبار بن جائے، تو امن معاشی طور پر غیر منطقی ہو جاتا ہے۔

پورے یورپ سے لے کر مغربی ایشیا تک یہی پیٹرن نظر آتا ہے۔ برطانوی دفاعی کمپنی بی اے ای سسٹمز نے 2024 میں ریکارڈ منافع حاصل کیا اور 2023 کے مقابلے میں اس کی آمدنی میں 14 فیصد اضافہ ہوا، جس کا سہرا یوکرین اور غزہ کی جنگوں کی بڑھتی طلب کو جاتا ہے۔ اسرائیل کی دفاعی کمپنیاں، جن میں ایل بِٹ سسٹمز بھی شامل ہے، نے علاقائی کشیدگی کے ساتھ ساتھ برآمدات میں نمایاں اضافہ درج کیا ہے۔ ہر تناؤ کا مطلب ہے نئے خریداری آرڈرز، یعنی دفاعی کمپنیوں کے لیے مزید کمائی۔ لہٰذا یہ بات کہ اسلحہ ساز کمپنیاں جنگ جاری رکھنے کی حامی ہیں، کوئی سازشی نظریہ نہیں، بلکہ ان کے کاروبار کی ساخت میں شامل ایک بنیادی معاشی حقیقت ہے۔


یہ غور طلب بات ہے کہ جب حکومتیں اسلحوں پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں تو وہ لازمی طور پر صحت، تعلیم اور ماحولیات کے بجٹ میں کٹوتی کرتی ہیں، جس سے قومی ترجیحات متاثر ہوتی ہیں۔ دفاعی ٹھیکیدار لابنگ اور انتخابی فنڈنگ کے ذریعہ اس چکر کو مضبوط کرتے ہیں۔ واشنگٹن میں پینٹاگون اور دفاعی کمپنیوں کے بورڈ رومز صنعت اور ریاستی مفادات کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈوائٹ ڈی. آئزن ہاور نے اس اتحاد کو کبھی ’فوجی-صنعتی کمپلیکس‘ کا نام دیا تھا، جو آج ایک مستقل طاقتور ڈھانچہ کے طور پر موجود ہے۔

اس جنگی معیشت کا نیا دائرہ ٹیکنالوجی ہے۔ خاص طور سے ڈاٹا، نگرانی اور مصنوعی ذہانت (اے آئی)۔ ڈینور میں قائم پیلنٹیر ٹیکنالوجیز نے اس تبدیلی کو سب سے نمایاں انداز میں اپنایا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے لیے ڈاٹا تجزیہ فراہم کرنے والی پیلنٹیر نے خود کو ’مغربی دنیا کے مصنوعی ذہانت کے اسلحہ خانہ‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کا سافٹ ویئر میدانِ جنگ کی خفیہ معلومات، رسد اور ہدف بندی کے نظاموں کو جوڑتا ہے، جس سے حملے زیادہ درست ہو جاتے ہیں۔ عملی طور پر یہ قتل کو زیادہ مؤثر اور کم جوابدہ بناتا ہے۔ غزہ میں پیلنٹیر نے اسرائیل کی ہدف پر مبنی کارروائیوں کو بے حد کامیاب بنایا ہے۔ اس کے پیش گوئی کرنے والے ماڈل زندگی اور موت کے فیصلوں کو محض کوڈ کی لائنوں میں بدل دیتے ہیں۔ اس کمپنی نے 2025 کی دوسری سہ ماہی میں ایک ارب ڈالر کی آمدنی درج کی، جس میں سے تقریباً نصف امریکی سرکاری ٹھیکوں سے حاصل ہوئی۔


جنگی علاقوں کے علاوہ پیلنٹیر کی ٹیکنالوجیز کا استعمال گھریلو پولیسنگ اور امیگریشن کے معاملات میں بھی کیا گیا ہے۔ جو نظام جنگی علاقوں میں دشمنوں کی نقل و حرکت کا نقشہ بناتا ہے، وہی نظام مغرب میں پناہ گزینوں اور مہاجرین کی نگرانی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ یوں یہ نگرانی کا نظام فوجی آپریشنز سے آگے بڑھ کر عام زندگی میں سرایت کر گیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جنگی معیشت روزمرہ کے نظم و نسق میں داخل ہو چکی ہے، جہاں انسان محض ڈاٹا پوائنٹس بن گئے ہیں اور معاشرے حقیقی یا خیالی ’سیکورٹی‘ خطرات کے خلاف فوراً صف آراء ہو جاتے ہیں۔

جب جنگ بڑھنے سے منافع بڑھتا ہو، جب فضائی حملوں کی خبروں سے عالمی اسٹاک مارکیٹ اوپر جاتی ہو، جب انسانی تکالیف کارپوریٹ ترقی کو تقویت دیتی ہو، تو ایسی صورت میں اخلاقی سوالات سے منہ کیسے موڑا جا سکتا ہے؟ دفاعی صنعت کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف حکومتوں کو سامان فراہم کرتی ہے، پالیسی نہیں بناتی۔ لیکن یہ دلیل کتنی معقول ہے؟ جنگ کے شکار لوگ اپنی جان دے کر اُن لوگوں کی خوشحالی کی قیمت چکاتے ہیں جو اُن کی موت سے منافع کماتے ہیں۔


عالمی اسلحے معیشت میں عدم مساوات کو بھی بڑھاتے ہیں۔ امیر ممالک اسلحہ بناتے اور برآمد کرتے ہیں، غریب ممالک انہیں بھاری قیمت پر خریدتے ہیں۔ اکثر وہ اس کے لیے قرض لیتے ہیں، جو انہیں طویل عرصہ تک مقروض بنا دیتا ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک، خاص طور پر ہندوستان میں، فوجی اخراجات صحت و تعلیم کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔

اقتدار پسند یا پابندی والے نظاموں میں بھی یہی پیٹرن ہے۔ روس کے سرکاری گروپ ’روسٹیک‘ نے 2022 سے میزائلوں، گولہ بارود اور بکتر بند گاڑیوں کی پیداوار میں زبردست اضافہ کیا ہے، جس سے اس کی آمدنی میں 49 فیصد اضافہ ہوا۔ چین کا دفاعی شعبہ پاکستان، بنگلہ دیش، افریقہ اور مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں اپنی برآمدات بڑھا رہا ہے۔ جنگی معیشت صرف امریکہ کی اجارہ داری نہیں، بلکہ یہ عسکری سرمایہ داری کا ایک عالمی نظام ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ فی الحال امریکہ اس کا مرکز ہے۔


یو سی ڈی پی کے اعداد و شمار یقیناً سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ یاد دلاتے ہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تنازعات بڑھ رہے ہیں، بے گھری میں اضافہ ہو رہا ہے اور انسانی فلاحی نظام کمزور پڑ رہے ہیں۔ جنگی معیشت تاریخ کا کوئی حادثہ نہیں، بلکہ یہ ایک سوچ سمجھ کر بنائی گئی ساخت ہے جو سیاست اور پیسہ سے تقویت پاتی ہے۔ اسے توڑنا آسان نہیں، لیکن اسے قبول کر لینا اس خیال کو دفن کرنے کے مترادف ہوگا کہ اب بھی امن ممکن ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں قتل فائدہ مند بن گیا ہے، اس نظام کی مخالفت اس لمحہ سے شروع ہوتی ہے جب ہم اسے معمول ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اُپسالا یونیورسٹی میں ’پیس اینڈ کنفلیکٹ ریسرچ‘ کے پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔