محبوب خان: ’مدر انڈیا‘ کے خالق اور ہندوستانی سنیما کے عظیم ہدایتکار...یومِ پیدائش کے موقع پر

مدر انڈیا کے خالق محبوب خان نے ہندوستانی سنیما کو عالمی سطح پر پہنچایا۔ اداکار سے ہدایتکار بننے کا سفر آسان نہ تھا مگر ان کی فلمیں آج بھی ان کے فن اور ان کی بصیرت کا استعارہ ہیں

<div class="paragraphs"><p>محبوب خان کی اے آئی سے تیار کردہ تصویر</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں محبوب خان ایک ایسا نام ہے جسے عظمت اور تخلیقی جراْت کا استعارہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا شمار ان فلم سازوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف فلمی دنیا میں اپنی انفرادیت قائم کی بلکہ ایسے موضوعات اور طرزِ بیان متعارف کرائے جنہوں نے ناظرین پر دیرپا اثر چھوڑا۔

محبوب خان (اصل نام رمضان خان) 9 ستمبر 1907 کو گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں بلمیریا میں پیدا ہوئے۔ جوانی ہی میں وہ گھر سے نکل کر ممبئی آ گئے اور اسٹوڈیوز میں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے۔ ان کے فلمی سفر کی ابتدا 1927 میں ہوئی جب انہیں ’علی بابا اینڈ فورٹی تھیفس‘ میں ایک چور کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ یہ معمولی کردار ضرور تھا لیکن ان کے فلمی مستقبل کی بنیاد رکھ گیا۔

ابتدائی برسوں میں وہ ساگر مووی ٹون کے ساتھ وابستہ رہے اور کئی فلموں میں معاون کردار ادا کیے لیکن ان کی اصل دلچسپی اداکاری سے زیادہ ہدایتکاری میں تھی۔ 1935 میں انہیں پہلی بار ’ججمنٹ آف اللہ‘ کی ہدایتکاری کا موقع ملا۔ عرب اور روم کی جنگ پر مبنی اس فلم نے انہیں فلم ساز کے طور پر پہچان دلائی۔ تاہم، اگلی دو فلمیں ’من موہن‘ (1936) اور ’جاگیردار‘ (1937) زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان کی قسمت 1937 میں بدلی جب سماجی موضوع پر مبنی فلم ’ایک ہی راستہ‘ ریلیز ہوئی اور خوب پذیرائی ملی۔

1939 میں دوسری عالمی جنگ نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو مالی طور پر کمزور کر دیا اور ساگر مووی ٹون بھی بند ہو گیا۔ اس کے بعد محبوب خان نیشنل اسٹوڈیوز میں شامل ہوئے جہاں انہوں نے ’عورت‘، ’بہن‘ اور ’روٹی‘ جیسی فلمیں بنائیں۔ تاہم جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ وہ اپنی تخلیقی سوچ کے مطابق کام نہیں کر پا رہے، چنانچہ انہوں نے اپنا پروڈکشن ہاؤس ’محبوب پروڈکشنز‘ قائم کیا۔


اس نئے سفر میں ان کی کئی کامیاب فلمیں سامنے آئیں۔ ’نجمہ‘ اور ’تقدیر‘ (1943) نے انہیں مضبوط مقام دیا، جبکہ 1946 کی ’انمول گھڑی‘ سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے نغمے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ 1949 میں ریلیز ہونے والی ’انداز‘ کو بھی خاصی کامیابی ملی، جس میں دلیپ کمار، نرگس اور راج کپور نے مرکزی کردار ادا کیے۔

1952 میں ان کی سب سے یادگار فلموں میں سے ایک ’آن‘ ریلیز ہوئی، جو ہندوستان کی پہلی ٹیکنیکلر فلم تھی۔ بڑے بجٹ اور شاندار تکنیک کے ساتھ بنائی گئی اس فلم نے عالمی سطح پر ہندوستانی فلم انڈسٹری کی پہچان بڑھائی۔ یہ پہلی ہندوستانی فلم تھی جو دنیا بھر میں بیک وقت ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے ’امر‘ بنائی، جو اگرچہ کمرشل طور پر کامیاب نہیں ہوئی لیکن عصمت دری جیسے حساس موضوع پر بننے کے باعث انہیں ایک سنجیدہ فلم ساز کے طور پر مزید اعتبار ملا۔

محبوب خان کی سب سے بڑی کامیابی 1957 میں سامنے آئی جب انہوں نے ’مدر انڈیا‘ بنائی۔ یہ فلم نہ صرف ان کے کیریئر کی سب سے عظیم تخلیق مانی جاتی ہے بلکہ ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس فلم کو اپنی پرانی فلم ’عورت‘ کے نام سے ریلیز کرنا چاہتے تھے لیکن نرگس کے مشورے پر اس کا نام ’مدر انڈیا‘ رکھا گیا۔ فلم نے عالمی سطح پر شہرت پائی اور آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوئی۔

1962 میں انہوں نے بڑی امیدوں کے ساتھ ’سن آف انڈیا‘ بنائی، لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔ اگرچہ اس فلم کے گانے آج بھی مقبول ہیں لیکن اس ناکامی نے انہیں مایوس کیا۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ 16ویں صدی کی کشمیری شاعرہ حبا خاتون پر فلم بنانا چاہتے تھے لیکن یہ خواب ادھورا رہ گیا۔

28 مئی 1964 کو محبوب خان اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ان کی فلمیں اور تخلیقات آج بھی زندہ ہیں۔ ’مدر انڈیا‘ جیسی فلم نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ ان کا نام ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔