ہندوستان میں دورِ وسطیٰ میں ہوئی جنگیں مذہبی نہیں تھیں... بھرت ڈوگرا

دورِ وسطیٰ کی اہم جنگوں کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ ہندو-مسلم جنگ نہیں تھیں، ہلدی گھاٹی کی جنگ میں اکبر نے راجہ مان سنگھ کو سپہ سالار بنایا تو رانا پرتاپ کی طرف سے حکیم خاں بہادری سے لڑے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

بھرت ڈوگرا

کچھ لوگوں نے اپنے مفادات اور غلط مقاصد کے حصول کے لیے تاریخ کو بہت غلط طریقے سے پیش کیا ہے۔ خاص طور سے تاریخ کو فرقہ وارانہ رَنگ دینے کی غلط کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔ مختلف مذاہب کے حکمراں کئی بار آپسی تعاون سے عام دشمنوں کے خلاف لڑتے تھے۔ کئی حکمرانوں نے اپنے مذہب سے الگ فوجیوں کو بہت اونچے عہدے دیے اور ان فوجیوں بھی اپنی وفاداری کو خوب نبھایا۔ ہندوستان میں دورِ وسطیٰ میں ہوئی جنگوں کی متعدد فوجیں ملی جلی ہوتی تھیں۔

دورِ وسطیٰ کی اہم جنگوں کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ ہندو-مسلم جنگ نہیں تھی بلکہ دونوں طرف ملی جلی ہوئی افواج تھیں۔ ہلدی گھاٹی کی لڑائی میں اکبر کی طرف سے راجہ مان سنگھ کو سپہ سالار بنایا گیا تو رانا پرتاپ کی طرف سے حکیم خاں سور اور ان کے مسلم فوجی بہادری سے لڑے۔ شیواجی نے اپنی فوج میں مسلمانوں کو بہت اہم جگہ دی تھی۔


جب باہری حملے ہوتے تھے تو ان کی ذمہ داری ہندو-مسلم دونوں کو سنبھالنی پڑتی تھی۔ منگول حملوں سے نمٹنے میں ہندو-مسلم دونوں کا کردار مشترکہ تھا۔ نادر شاہ کا مقابلہ محمد شاہ نے کرنال میں کیا تو احمد شاہ ابدالی کا مقابلہ مراٹھوں نے پانی پت میں کیا۔ ان جنگوں میں ہندو راجاؤں کی فوج میں بھی مسلم سپہ سالار اور معاونین تھے۔ احمد شاہ ابدالی سے لڑنے والی مراٹھا فوج کے ایک بہت مستعد حصے کی قیادت ابراہیم خاں گردی نے کی۔

ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں ہندو راجہ کو ہندو راجہ نے شکست دے دی اور مظالم کیے گئے تو اسے مسلم راجہ نے پناہ دی۔ مثال کے یے مارواڑ کے راجہ نے بیکانیر کے راجہ کو شکست دے دی اور بیکانیر کا راجہ جنگ میں لڑتا ہوا مارا گیا۔ تب اس کے بیٹوں کلیان داس اور بھیم کو پناہ کہاں ملی؟ شیر شاہ سوری کے دربار میں۔ اسی طرح ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے ہرا دیا تو اسے پناہ کس نے دی؟ امرکوٹ کے رانا نے۔ وہیں اکبر کی پیدائش بھی ہوئی۔


درحقیقت اکبر نے کئی اہم فوجی اور انتظامی ذمہ داریاں ہندو راجاؤں اور سامنتوں کو سونپ دی تھی۔ اس لیے جب ہندو راجاؤں سے اکبر کی جنگیں ہوئیں تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ ہوئی، کیونکہ اکبر کی طرف سے بھی ہندو فوج اور سپہ سالار بھیجے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ مغل افواج جو ہندو سپہ سالاروں کی قیادت میں تھیں اور جن میں بہت سے ہندو، خصوصاً راجپوت فوجی تھے، دیگر مسلم بادشاہوں کے خلاف لڑنے گئے۔ کئی بار ان مخالف مسلم راجاؤں کی فوج میں کئی ہندو فوجی اور سپہ سالار بھی ہوتے تھے۔ مثال کے لیے جنوب میں مسلم حکمرانوں کی فوج میں متعدد مراٹھا فوجی تھے۔ اس طرح اکثر دونوں طرف سے ملی جلی فوج ہوتی تھی۔ ایسا نہیں کہ ایک طرف صرف ہندو ہوں اور دوسری طرف صرف مسلم۔

کئی راجپوت راجاؤں کو لاہور، کابل، بنگال، بہار، گجرات، اجمیر جیسے اہم مقامات کا گورنر بنایا گیا اور انھوں نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے مغل ریاستوں کی حفاظت کی ایک اہم ذمہ داری سنبھالی۔ سال 1572 میں جب اکبر کو گجرات جانا پڑا تو آگرہ (جہاں شاہی فیملی کی سب خواتین رہ رہی تھیں) کی ذمہ داری راجہ بھارامل کو سونپی گئی۔


اکبر اور کچھ حد تک جہانگیر کے وقت کی اہم بات یہ ہے کہ ان مغل حکمرانوں کو خود مسلم شدت پسندوں کی مخالفت برداشت کرنی پڑی اور جنگ کے وقت مسلم شدت پسندوں نے ان مغل حکمرانوں کے خلاف فتوے بھی جاری کیے۔ سال 81-1580 میں بنگال اور بہار میں اکبر کے خلاف بغاوت ہوئی تو باغیوں کے حق میں فتویٰ جاری کیا گیا کہ سب مسلمان اکبر کے خلاف لڑیں۔ دوسری طرف ان باغیوں کو کچلنے کے لیے اکبر نے جو افواج بھیجیں ان کی قیادت راجہ ٹوڈرمل اور راجہ مان سنگھ نے کی۔ ٹوڈرمل، مان سنگھ اور بھگوان داس کی افواج کےآگے باغیوں کے لیے زیادہ دیر تک سنبھلنا ممکن نہیں رہا۔

سوال یہ ہے کہ جب کوئی مسلم لبرل راجہ کسی ہندو راجہ یا سپہ سالار کی مدد سے مسلم شدت پسندوں کے احتجاج کو دبا رہا ہے یا کسی ہندو راجہ کی فوج میں مسلم سپہ سالار اور فوجی بہت بہادری سے لڑ رہے ہیں تو اسے دو مذاہب کی جنگ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ایسے حالات کے باوجود فرقہ وارانہ عناصر لگاتار تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ایسی غلط کوششوں سے محتاط رہنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔