کاش! کوئی لوٹا دے مجھے پہلے جیسے تہوار

ہندوستان میں تہواروں کا رنگ بدلتا جا رہا ہے۔ حکومت کے بعض فیصلے فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں، جس سے طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام اب تہواروں میں بھی سکون کے لیے دعا مانگتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>
i
user

سید خرم رضا

پوری دنیا کا ماحول بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں کچھ زیادہ ہی تیزی سے بدلتا نظر آ رہا ہے اور اس کی وجہ اقتدار کی جنگ نظر آتی ہے۔ اقتدار کی جنگ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ موجودہ برسراقتدار جماعت یا اتحاد بس کسی بھی طرح اقتدار میں بنے رہنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اس نے ایک جلدی اور آسان والا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ آسان راستہ اس لئے کہا کیونکہ حکمرانی اور عوامی مسائل کے حل کو توجہ نہ دے کر عوام کو فرقہ پرستی کی آگ میں جلنے کے لئے اس لئے چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس سے اقتدار میں بنے رہنے کے سب سے شاندار امکانات  جلدی اور آسانی سےپیدا ہوتے ہیں۔

ہندوستانی عوام پہلے بھی ہولی، عید، نماز جمعہ اور نوراتری مناتے رہے ہیں لیکن یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ ہولی کے دن ہونے والی نماز جمعہ کے موقع پر مساجد پر ترپال لپیٹے گئے اور ایسے حکم نامے بھی کبھی جاری ہوتے نہیں دیکھے کہ نوراتری میں گوشت کی دکانیں بند رہیں گی۔ ہریانہ میں عید کی گزٹیڈ چھٹی کو ریسٹرکٹڈ چھٹی میں تبدیلی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ معاشی سال کا آخری دن ہونے کی وجہ سے بینک ملازمین کا آنا لازمی ہے اور کیونکہ عید سے دو دن پہلے ہفتہ اور اتوار ہونے کی وجہ بھی رہی اور شاید اسی لئے ہریانہ حکومت نے عید کی تعطیل کو گزٹیڈ کے زمرے سے ہٹا کر ریسٹرکٹڈ کے زمرے میں ڈال دیا۔ اس نزاکت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پورے ملک میں لاگو کیا جا سکتا تھا لیکن ملک کی باقی ریاستوں نے ایسا نہ کر کے ہریانہ حکومت کے اس فیصلے کو بھی سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کیا ہے۔


دراصل یہ معاملے بھی اس لئے اٹھ رہے ہیں کیونکہ ایک طبقہ کو خوش کرنے کے لئے کچھ رہنما ان تمام فیصلوں کو ملک کے ایک طبقے کے خلاف ظاہر کر کے دوسرے طبقے کی حمایت حاصل کر رہے ہیں۔ جیسا کہا گیا کہ اقتدار حاصل کرنے کا یہ ایک آسان اور آزمودہ طریقہ ہے لیکن اس اقدام سے ملک میں طبقاتی تقسیم کو ہوا مل رہی ہے۔ ہولی ہو، عید ہو یا نوراتری ہو، پہلے بھی ہندوستانی عوام مل جل کر مناتے رہے ہیں اور ان کی کوشش رہتی ہے کہ یہ تہوار امن، سکون اور خوشی خوشی سے منائے جائیں اور منائے جاتے رہے ہیں، جس سے کسی طبقے کو کوئی پریشانی بھی نہیں ہوئی ہے۔

ایسی مثالیں بہت دی جا سکتی ہیں کہ کیسے ملک کے دو طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے تہوار مناتے رہے ہیں لیکن اب ماحول پوری طرح بدل گیا ہے، لوگ اب ایک دوسرے سے ملتے ہوئے بھی سوچتے ہیں اور دل و دماغ کی بات نہیں کہتے بلکہ جو سامنے والا سننا چاہتا ہے وہی بولتے ہیں۔ حزب اقتدار کے لاکھ دعوؤں کے باوجود ملک میں ایک طبقہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھ رہا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ خوف و عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ایک طبقے کو اپنے تہوار منانے کے لیے سرکاری سہولتیں دی جا رہی ہیں، جبکہ دوسرا طبقہ اپنے تہوار کے پرامن گزرنے کی دعائیں مانگنے پر مجبور ہے۔


عید الفطر کا تہوار فرقہ واریت کے سائے سے محفوظ گزر جائے، یہی آج کے عوام کی دعا ہے، جبکہ پہلے وہ سب کے ساتھ عید منانے اور سیویاں کھانے میں مشغول رہتے تھے اور شاید ہی کبھی تہوار کے پرامن گزرنے کے لیے دعاگو ہوتے تھے۔ اگر آج کسی دعا کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ یہی ہے کہ تہوار پھر سے ویسے ہی محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ منائے جائیں۔ اقتدار تو آتا جاتا رہتا ہے، اصل دولت تو باہمی محبت اور بھائی چارہ ہے۔ کاش! کوئی لوٹا دے مجھے پہلے جیسے تہوار۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔