ہندو مسلم اتحاد کے نقیب: مولانا شوکت علی...برسی کے موقع پر
1921 میں انگریزی حکومت کے خلاف الزام پر گرفتاری کے بعد مولانا شوکت علی نے عدالت میں دفاع نہیں کیا بلکہ بے خوف تقریر کی، خود کو خدا کا فرمانبردار اور ہندوستان کا آزاد شہری بھی قرار دیا

تحریک آزادیٔ ہند میں علی برادر س یعنی مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کے نام جلی حروف میں درج ہیں، جنہوں نے اپنی تحریروں و تقریروں سے انگریزی ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دیا تھا، اگرچہ بڑے بھائی مولانا شوکت علی کو مولانا محمد علی جوہر کی بنسبت کم عالمگیر شہرت ملی مگر ملک و قوم کے تئیں ان کی خدمات کسی بھی پہلو سے کم نہیں تھیں۔ مولانا شوکت علی اپنے بھائی کی علم و فراست کے ہمیشہ معترف رہتے تھے، جب بھی اہم مسئلہ ناگزیر ہوتا اپنے بھائی کو آگے کرتے اور خود ان کی تقلید کرنے کوشش کرتے۔ دونوں بھائیوں نے عدم تعاون اور خلافت تحریک کو وطن عزیز کے گھر گھر تک پہنچا دیا تھا۔
بہرحال عظیم رہنما مولانا شوکت علی کی ولادت 10 مارچ 1873 کو نجیب آباد ضلع بجنور میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام عبد العلی خاں تھا، جو ریاست رامپور کے گھوڑ سواری دستے کے ملازم تھے اور 1880 میں محض 33 سال کی عمر میں ہیضے کی وبا کے شکار ہوگئے۔ لیکن والدہ آبادی بانو بیگم عرف بی اماں جو خوددار، استحکام، استقلال، صبر وتحمل اور ہمت و حوصلہ کا پیکر تھیں، انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ابتدائی تعلیم نجیب آباد میں حاصل کرنے کے بعد شوکت علی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ بھیجا گیا، جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء یونین کے صدر منتخب ہوئے اور کرکٹ ٹیم کی کپتانی بھی سنبھالی۔ 1895 میں گریجویشن کرنے کے بعد برطانوی حکومت کی ملازمت اختیار کی لیکن ملکی اور عالمی منظر نامہ پر یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ظہور پزیر ہوئے کہ 1913 میں ملازمت کو خیر باد کہہ کر ملک و قوم کی خدمت میں منہمک ہو گئے اور انجمن خدام کعبہ کی تشکیل دی۔
شوکت علی نے اپنے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے انگریز ی جریدہ ’کامریڈ‘ اور’ہمدرد‘ میں انگریزی غلامی کے خلاف ایسی انقلاب آفریں تحریریں لکھیں،جنہیں دیکھ کر برطانوی حکام کے جبیں پر پسینہ آ گیا۔ جس کے باعث پہلی عالمی جنگ کے دوران علی برادرس کو مہر ولی، لینس ڈاؤن (گڑھوال)، چھندواڑہ اور بیتول وغیرہ جیل خانوں کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ان سے ملاقات کے لیے بابائے قوم مہاتما گاندھی خود جیل خانے تشریف لے گیے تھے۔
مہاتما گاندھی کی شخصیت سے دونوں بھائی اتنے مثاتر ہوئے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد گھر یا اہل و عیال سے ملنے کے بجائے سیدھے امرتسر پہنچے جہاں کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس کے سالانہ اجلاس ایک ساتھ منعقد ہو رہے تھے۔ جیسے ہی علی برادران خیمے میں داخل ہوئے علامہ اقبال نے ان کا ایک نظم کے ساتھ شہباز اور شاہین کے القاب سے پکارتے ہوئے خیر مقدم کیا۔ الغرض مہاتما گاندھی کی زیر قیادت 1919 میں علی برادران خلافت اور عدم تعاون تحریک میں پیش پیش رہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ علی برادران اور مہاتما گاندھی نے 1857 کے برادران رشتوں کی روح کو دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ جس کے سبب 1921 سے 1923 کے درمیان انہیں متعدد مرتبہ قید فرنگ کی ہوا کھانی پڑی۔
جب مولانا کو 1921 میی انگریزی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزام میں پولیس نے حراست میں لیا تو انہوں نے جج کے سامنے اپنا دفاع کرنے کے بجائے بے باک تقریر کی۔ جب اس نے انہیں یہ کہہ کر روکنے کی سعی کی کہ وہ ان کا درس سننے کے آرزو مند نہیں ہیں تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ ’’پھر آپ مجھے پھانسی کے تختے پر چڑھا سکتے ہیں۔ میں نے سینکڑوں تقریریں کی ہیں اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ آپ اس کو سنیں یا نہ سنیں۔ مولانا شوکت علی نے تقریر کے دوران اعلان کیا کہ میں خدا کا فرمانبردار بندہ ہوں اور ہندوستان کا آزاد شہری ہوں۔ مجھے نہ کسی بادشاہ کی ضرورت ہے، نہ عدالت کی اور نہ فوج کی۔ یہاں تک کہ اگر مجھ پر موت کا مقدمہ چلایا جائے تو اس سے مجھے بے حد خوشی ہوگی۔‘‘
1928 میں نہرو رپورٹ اور کچھ دیگر اختلافات کے سبب 1929 میں کانگریس سے دوری بنا لی اور دلی میں ایک آل پارٹی میٹنگ بلائی ۔ اسی اثنا میں مسلم لیگ سے بھی قربت بڑھی۔ لیکن 1931ءمیں مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد آپ کی سیاسی ا سرگرمیاں پہلے کے مقابلے کم ہو گیی، تاہم 1936ءمیں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
الحاصل ملک کی آزادی کے اس جانباز سپاہی مولانا شوکت علی نے 26 نومبر 1938 کو دہلی کے قرول باغ میں آخری سانس لی اور تدفین 28 نومبر کو دہلی جامع مسجد کے قریبی قربستان میں ہوئی۔ ہندو و مسلم اتحاد کے لیے مولانا شوکت علی اور ان کے بھائی محمد علی جوہر نے مساوات، بھائی چارگی اور قومی یکجہتی کے لیے جو بے لوث کاوشیں کیں ان کو بھلایا نہیں جا سکتا ہے اور جن کی دور حاضر میں اشد ضرورت ہے۔