مولانا محمد علی جوہرؔ: جنگ آزادی کا ایک عظیم سورما

مولانا جوہرؔ ایک نڈر، حق گو، بے باک صحافی، تحریک خلافت کے روح رواں اور جنگ آزادی کے میر کارواں تھے۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے ان کے لئے کہا تھا کہ ان کی آواز مشرق نے بھی سنی اور مغرب نے بھی“

مولانا محمد علی جوہرؔ
مولانا محمد علی جوہرؔ
user

شاہد صدیقی علیگ

مولانا محمد علی جوہرؔ ایک نڈر، حق گو، بے باک صحافی، تحریک خلافت کے روح رواں اور جنگ آزادی کے میر کارواں تھے۔ بقول مولانا عبدالماجد دریا آبادی ’’ملک کے طول وعرض میں بس ایک ہی ہستی تھی،جس کی آواز مشرق نے بھی سنی اور مغرب نے بھی“

مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878 کو نجیب آباد ریاست رامپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مروجہ دستور کے مطابق حاصل کرنے کے بعد میٹرک بریلی ہائی اسکول سے کیا۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے ایم اے او کالج علی گڑھ اور 1898 میں لنکن کالج آکسفرڈ یونیورسٹی بھیجے گئے۔ 1902 میں وطن واپس لوٹے اور ریاست رامپور میں سی ای او کے عہدے پر مامور ہوئے۔

بعد ازاں سات برس ریاست بڑودہ میں ملازمت کی۔ 1907 میں ٹائمز آف انڈیا بمبئی کے لیے مضمون لکھ کر اپنی صحافیانہ زندگی کا آغاز کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 13 جنوری 1911 کو کلکتہ سے انگریزی ہفتہ وار کامیریڈ کا پہلا شمارہ شائع کیا۔ مولانا نے صحافت کو نئے اسلوب اور نئے رمز سے آشنا کیا۔ جن کی طرز تحریر میں بادلوں کی گھن گرج کی کیفیت اور بجلی کی سی تڑپ پائی جاتی ہے۔

ایچ جی ویلز نے ان کے بارے میں لکھا تھا ’’مولانا محمد علی جوہرؔ کے پاس میکالے کا قلم، برکلے کی زبان اور نپولین کا ذہن و دل تھا۔‘‘


انہوں نے اپنے جذبات کو الفاظ کے سحر آگیں سانچوں میں ایسا ڈھالا کہ انگریز اقتدار اعلیٰ کی اکثریت کامریڈ کی پرستار بن گئی۔ یہاں تک کہ خود لیڈی ہارڈنگ بھی کامریڈ کے دفتر فون کر کے اگلے شمارے کے بارے میں دریافت کرتی تھیں۔ مولانا جوہر نے جس نصب العین کے لیے کامریڈ شروع کیا تھا، اسی نہج پر 23 فروری 1913 کو اردو میں ایک ہفت روزہ ہمدرد کی بھی اشاعت کا آغاز کیا۔ ہمدرد کے مضامین نے صحافتی میدان میں طوفان برپا کر دیا۔ جس نے ہندوستانیوں میں جذبہ حب الوطنی اور جدوجہد آزادی کے لیے نیا جوش و ولولہ پیدا کر دیا، نیز بلاامتیاز قوم وملت میں اتحاد اور قومی یکجہتی کو پروان چڑھایا۔

اسی بیچ لندن ٹائمز میں ایک مضمون ”دی چوائس آف ٹرکس“ شائع ہوا، جس میں ترکوں کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ جنگ میں غیر جانب دار رہیں ورنہ انجام بھگتنے کو تیار رہیں۔ مولانا نے علالت کے باوجود لگاتار چالیس گھنٹے لکھ کر مضمون شائع کیا۔ جس کے ردعمل میں دوسرے ہی روز انگریز انتظامیہ نے کامریڈ کو ضبط کر لیا۔

انگریز حکام نے مولانا جوہر کے قلمی وعملی سرگرمیو ں سے خوف زدہ ہو کر 15 مئی 1915 کو مولانا اور شوکت علی کو مہر ولی میں نظر بند کر دیا۔ جس کے بعد انہیں لینسڈاؤن، چھندواڑہ اور بیتول جیل کی صعوبیتں برداشت کرنی پڑیں جہاں سے وہ ساڑھے چار سال کے بعد رہا ہوئے۔


مولانا نے خلافت کانفرنس کراچی میں تجویز پیش کی کہ مسلمانوں کے لیے برطانوی فوج میں بھرتی ہونا یا ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔جس کی پاداش میں مولانا کو دوسری بار گرفتار کیا گیا اور دو سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ وہ 1923 میں کانگریس کے چھٹے مسلم صدر منتخب ہوئے۔ مولانا جوہر آخری دم تک ہندو مسلم اتحاد کے لیے جمیلہ مساعی کرتے رہے۔

لندن میں نومبر1930 کو پہلی گول میزکانفرنس میں شدید بیمار ی کی حالت میں شرکت کی اور گرجتے ہوئے خطاب کیا ”آج جس مقصد کے لیے میں یہاں آیا ہوں وہ یہ ہے کہ میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک غیر ملک میں جب تک وہ آزاد ہے، مرنے کو ترجیح دوں گا اور آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔“

مولانا محمد علی جوہر کی دلی خواہش کو اللہ تعالیٰ نے سن لیا اور وہ غلام ملک میں واپس نہیں لوٹے۔ ہزار حیف! مولا نا محمد علی جوہر جیسی ہفت پہلو شخصیت جنہوں نے اپنی زندگی کے بیشتر لیل و نہار ملک و قوم کے لیے قربان کر دیے، آج انہیں ملک میں فراموش کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔