مولانا ابوالکلام آزاد: ایک عہد ساز شخصیت (یومِ پیدائش پر خصوصی پیشکش)... ڈاکٹر شاہ نواز حیدر شمسی

مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کی آزادی اور انگریز حکومت کے درمیان مضبوط چٹانی عزائم کے ساتھ حائل رہے، انھوں نے اپنی زندگی کے بیش قیمتی 10 سال قید خانے کی صعوبتوں میں گزارے۔

مولانا ابوالکلام آزاد
مولانا ابوالکلام آزاد
user

ڈاکٹر شاہ نواز حیدر شمسی

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک باب اور ایک عہد کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ جامع الکمال اور عدیم المثال ہیں۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کی نظیر ہے کہ انھوں نے بحیثیت مقرر و محرر یکساں مقبولیت حاصل کی۔ وہ ملکی و ملی قائدانہ صلاحیت سے بھرپور تھے۔ تاریخی و تہذیبی شخصیت کے ساتھ انھوں نے مذہبی، ادبی اور سیاسی و صحافتی میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم ہونے کے باعث انھوں نے ملک کے تعلیمی تصورات کو معیاری حسن عطا کیا۔ نیز اس کی اصلاحات کی کوششیں کیں۔ وہ ایک بڑے مفکر و مدبر تھے اور انھیں گہری سیاسی و سماجی اور تعلیمی بصیرت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بیشتر شخصیات اور اعلیٰ قیادت ان سے متاثر تھی۔ ان میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل جیسی صف اول کی ہستیاں شامل ہیں۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت سے بے حد متاثر تھے۔ اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں:

’’میں صرف عملی سیاست ہی نہیں جانتا، سیاست کا طالب علم بھی ہوں۔ علم سیاست کی کتابیں مجھ سے زیادہ ہندوستان میں کسی اور نے نہیں پڑھیں۔ میں تیسرے چوتھے سال یورپ کا بھی دورہ کرتا ہوں جہاں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے سیاست کے تازہ ترین علم سے واقفیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن جب ہندوستان پہنچ کر مولانا ابوالکلام آزاد سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب بھی بہت آگے ہیں۔‘‘ (’ابوالکلام آزاد: ایک ہمہ گیر شخصیت‘، رشید الدین خاں، صفحہ 12)

مولانا ابوالکلام آزاد کا عہد اس اعتبار سے بھی تاریخ ہند کا عہد زریں ہے کہ انھوں نے اس روئے زمین پر قدم رکھا تو دانشوروں کا ایک قبیلہ ملک کے بہتر مستقبل اور اس کے ارتقا کی راہوں کو ہموار کرنے میں مصروف جدوجہد تھا اور تعمیر و ترقی کے انقلابی حالات پیدا ہو رہے تھے۔ اس تحریک میں سرسید، حالی، شبلی، محمد حسین آزاد، نذیر احمد اور دیگر رفقا شامل تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور ایک دوسرے بڑے معاصر شاعر و مفکر علامہ اقبال تحریک علی گڑھ یا تحریک سرسید سے متاثر تھے، اور انھیں افکار و تدابیر کی بنا پر انھوں نے ملک کی قومی یکجہتی، حب الوطنی اور قوم و ملت کے مشترکہ اتحاد و اتفاق کے لیے کام کیا۔


مولانا ابوالکلام آزاد کا تعلق ایک مذہبی، تعلیمی و تہذیبی خانوادے سے تھا۔ ان کے پردادا مولانا منور الدین بڑے عالم دین تھے۔ مغلیہ سلطنت نے انھیں ’رکن المدرسین‘ کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ والد ماجد مولانا خیرالدین اسلامیات کے ماہر اور شاعر و ادیب تھے۔ ان کی والدہ بھی بزرگ اور نیک سیرت خاتون تھیں، جن کے والد شیخ محمد ظاہر وتری مدینہ منورہ میں عالم دین کی حیثیت سے معروف تھے۔ لہٰذا مولانا ابوالکلام آزاد بنیادی طور پر ایک مذہب پرست اور بیدار ذہن شخص تھے۔ ان کی پیدائش 11 نومبر 1888 کو مکہ معظمہ میں اور وفات 22 فروری 1958 کو دہلی میں ہوئی۔ 1898 میں ان کے والد انھیں ہندوستان لے آئے۔ والد نے ان کا نام محی الدین رکھا اور تاریخی نام فیروز بخت۔ مذہبی علوم سے خصوصی نسبت، تعلیمی و تہذیبی ذوق اور گھر کے ماحول و تربیت نے مولانا ابوالکلام آزاد کو اعلیٰ افکار و نظریات کا حامل بنایا اور بڑے مقاصد و عزائم ان کا نصب العین بن گیا۔ انھوں نے اپنی ذہانت و فطانت، علمی و فکری لیاقت اور کردار و عمل سے ملک و ملت کو ایک بلند خیال فکر و بصیرت دی، تعمیری کردار دیا۔ وہ قلم و قدم دونوں میدان کے مجاہد، علم و عمل کے پیکر اور قابل تقلید شخصیت بن کر ابھرے۔

مولانا آزاد نے بہت کم عمری میں اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ 10-8 سال کی عمر عموماً کھیلنے، بے فکری اور غیر سنجیدہ روی کی ہوتی ہے۔ مگر فطری ذہانت اور ذوق و شوق نے انھیں جلد علم و ادب کے فروغ کے لیے مختص کر دیا۔ 1898 میں انھوں نے محض 10 سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور گیارہویں سال یعنی 1899 میں ’نیرنگ خیال‘ کے اجرا کے ساتھ صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ اس کے بعد متعدد اخبارات جاری کیے اور رسائل کی ادارت بھی کی۔ ان میں ’لسان الصدق‘ اور ’المصباح‘ اہم ہیں۔ انھوں نے 24 سال کی عمر میں مشہور زمانہ ہفتہ وار اخبار ’الہلال‘ 1912 میں جاری کیا، جب کہ ایک دوسرا معرکۃ الآرا اخبار ’البلاغ‘ 1915 میں منصہ شہود پر آیا۔ نہ صرف اردو صحافت بلکہ ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں اسے ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ’احسن الاخبار‘ (کلکتہ)، ’خدنگ نظر‘ (لکھنؤ)، ’ایڈورڈ گزٹ‘ (شاہجہاں پور)، ’الندوہ‘ (لکھنؤ)، ’وکیل‘ (امرتسر)، اور ’دارالسلطنت‘ (کلکتہ) کی ادارت کی۔ اس کے ساتھ تحریک ترک موالات کی دعوت کے لیے 23 ستمبر 1921 کو اپنی نگرانی میں ہفتہ وار ’پیغام‘ جاری کیا۔


مولانا ابوالکلام آزاد نے ملک کی آزادی و خوشحالی کے لیے سرگرم سیاست میں حصہ لیا، انگریز حکمرانوں کی بربریت کے خلاف محاذ آرائی کی اور جہد مسلسل میں شریک رہے۔ مولانا آزادیٔ ہند اور انگریز حکومت کے درمیان مضبوط چٹانی عزائم کے ساتھ حائل رہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے بیش قیمتی 10 سال قید خانے کی صعوبتوں میں گزاری۔ وہ 1916 تا 1945 تک وقفے وقفے سے سلاخوں میں ڈالے گئے۔ مگر ان کے ہمت و حوصلے اور پایہ استقامت میں لغزش نہ آ سکی اور بالآخر انھوں نے جنگ آزادی کا سپہ سالار بن کر انگریزوں کو ملک سے بے دخل کیا۔ ملک کے تخت و تاج میں انھیں تعلیم کا شعبہ عطا کیا گیا تاکہ ملک کی معماری کا فریضہ انجام دینے کا وہ حق ادا کر سکیں۔ قلعہ نگر جیل کی نظر بندی کے عہد 1942 تا 1945 میں ان کی فکر صحافت سے ادب کی جانب منتقل ہوئی۔ انھوں نے اس قید خانے میں اپنی مکتوبات پر مشتمل کتاب ’غبار خاطر‘ تحریر کی جسے ان کا اہم کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے قید خانے کی زندگی کے روداد کے علاوہ ملک کی سنگینی حالات کی تصویر کشی کی اور اپنے علم و فن کی ہنرمندی کے جلوے بھی بکھیرے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر تعقل و تفکر سے پر ہے۔ اس کا اسلوب منفرد، دلچسپ اور جاذب نظر ہے۔ زبان و بیان معیاری، علمیت سے بھرپور اور مطالعے کے لیے علمیت و افکار کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کی تحریر کا کمال یہ ہے کہ تخلیقی احساس و ادراک اور ہمہ رنگی قاری کو کہیں بھی خشک یا بے معنی نہیں ہونے دیتی اور دلچسپی و تازہ کاری کا سامان فراہم کرتی ہے۔ مثال کے بطور ’غبار خاطر‘ کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جس سے مولانا آزاد کے منفرد اسلوب اور دلکش طرز نگارش، تخلیقی حسیت اور معنوی پہلو داری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

’’جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردہ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہو۔ کبھی چاند کی حسن افروزیوں سے جہان تک رہی ہوں۔ جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرندے ہر صبح و شام چہکیں اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے۔ یہاں سرو سامان کار کی تو اتنی فراوانی ہوئی کہ کسی گوشے میں بھی گم نہیں ہو سکتا۔ مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے ہی باہر ساری چیز ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈھیں گے۔ حالانکہ اگر اسے ڈھونڈ نکالیں گے تو عیش و مسرت کا سارا سامان اسی کوٹھری کے اندر سمٹا ہوا مل جائے گا۔‘‘ (’ابوالکلام آزاد: ایک ہمہ گیر شخصیت‘، مرتب رشید الدین خان)

اسی خوش رنگ تحریر اور دلکش اسلوب نگارش کی بنا پر اپنے وقت کی بعض بلند شخصیتوں نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ قرآن مجید اگر اردو زبان میں نازل ہوتا تو اس کا اسلوب مولانا ابوالکلام آزاد کا ہوتا۔ مجاہد آزادی و معتبر شاعر حسرت موہانی نے اس اہمیت کا احساس اپنے شعر میں اس طرح کرایا کہ:

جب سے دیکھا ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا


مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک بڑا علمی کارنامہ قرآن مجید کی تفسیر و تشریح ہے۔ انھوں نے دو جلدوں میں ’ترجمان القرآن‘ کے نام سے قرآن حکیم کی تفہیم کی۔ ان کی علالت صحت کے باعث تیسری جلد نہ آ سکی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس جز وقتی اور فانی زندگی میں نہ جانے کتنے بڑے بڑے خدمات انجام دیے۔ ملک کا سیاسی و سماجی، تعلیمی و تدریسی، علمی و ادبی اور تاریخی و صحافتی میدان مولانا آزاد کے کارناموں سے روشن اور متوازن ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے لائق قدر اور قابل تقلید کارناموں کو سمیٹنے کے لیے بھی ایک عہد درکار ہے۔ بہرحال، قوم و ملت سے عقیدت کا ان کا جذبہ باعث افتخار اور ناقابل فراموش ہے۔ ان کے کارنامے ملک کو نسل در نسل روشنی فراہم کرتے رہیں گے جس سے ہندوستان کی ترقی کے امکانات ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اخیر میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے اس شعر پر اپنی تحریر مکمل کرتا ہوں:

مرحبا اے ابوالکلام آزاد، تا قیامت رہے گی تیری یاد
قید خانوں میں خود رہا برسوں، ملک کو قید سے کیا آزاد

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔