مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان: جنگ آزادی کا عظیم سپاہی...سالگرہ کے موقع پر خصوصی پیشکش

مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان ایک ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے جو بیک وقت اعلیٰ پائے کے طبیب، حافظ، صاحب دیوان شاعر، خطاط، ادیب، صحافی ماہر تعلیم، ہند و مسلم اتحاد کے نقیب اور جنگ آزادی کے روح رواں تھے

<div class="paragraphs"><p>حکیم اجمل خان / تصویر شاہد صدیقی علیگ</p></div>

حکیم اجمل خان / تصویر شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

دہلی کے حکیم غلام محمود خان کے گھر میں 11 فروری 1868 پیدا ہونے والے مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان ایک ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے جو بیک وقت اعلیٰ پائے کے طبیب، حافظ، صاحب دیوان شاعر، خطاط، ادیب، صحافی ماہر تعلیم، ہند و مسلم اتحاد کے نقیب اور جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔

طب کے میدان اعلیٰ کارہائے نمایاں انجام دینے کے علاوہ ا جمل خان نے تحریک آزادی میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔ وہ ہندوستان کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں ہندو مسلمان دونوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ حکیم صاحب نے ہر اس تحریک میں شمولیت اختیار کی جس کی پہلی ترجیح برطانوی نو آبادیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا تھی۔ وہ نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت تحریک کے صدر منتخب ہوئے بلکہ جمعیۃ علماء ہند اور ہندو مہاسبھا جیسی جماعتوں کی صدارت کرنے کا شرف بھی ان کے حصہ میں آیا۔ انہوں نے گاندھی جی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر تحریک عدم تعاون میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی اور مولانا آزاد کی پہلی ملاقات کا سہرا بھی حکیم صاحب کے ہی سر جاتا ہے۔


حکیم صاحب نے ملک میں دیسی ادویات کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک بڑی تحریک چلائی اور اپنے مشن کو انجام تک پہنچانے کے لیے دہلی میں تین اعلیٰ اداروں کی بنیاد رکھی، پہلا سنٹرل کالج، دوسرا ہندوستانی دواخانہ اور تیسرا طبیہ کالج، جو اب آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج کے نام سے جانا جاتا ہے۔

حکیم صاحب کو کتب بینی کا بڑا شوق تھا اور قوم و ملت کی کامیابی کے لیے اعلیٰ تعلیم کو واحد ہتھیار گردانتے تھے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے امور میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا لیکن جب یونیورسٹی کے انقلابی طلباء نے مجاہدین کے ساتھ مل کر اسے سیاسی اکھاڑا بنانے کی کوشش کی، جو یونیورسٹی کی بقا کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھا تو مستقبل شناس حکیم صاحب اور ان کے رفقاء نے علی گڑھ میں ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور 22 نومبر 1920 کو اس کے پہلے چانسلر بنے اور مرتے دم تک اس عہدے پر فائز رہے۔ حکیم صاحب جامعہ کے چانسلر ہی نہیں بلکہ بہت حد تک اس کے اخراجات کے کفیل بھی تھے۔ 1925 میں جامعہ کو علی گڑھ سے دہلی منتقل کرنے کے فیصلے میں بھی ان کا بڑا ہاتھ تھا۔


مولانا محمد علی جوہر نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ طبیہ کالج حکیم صاحب کی جوانی کی اولاد ہے تو جامعہ ملیہ ان کے بڑھاپے کی! حکیم صاحب نے ملک میں رواداری، انسان دوستی اور مساوات پر کافی زور دیا۔ انہوں نے جامعہ کے بارے میں کہا تھا کہ جہاں ہم نے ایک طرف صراطِ مستقیم پر چلنے والے مسلمان پیدا کرنے کی مساعی کی تو وہیں د وسری جانب ان میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ بھی ابھارا۔ یہاں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ہندو طلبہ کو اسلامیات سے واقفیت ہونی چاہیے تو مسلمان طلبہ کو ہندو رسم و رواج سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔

انگریزوں نے حکیم اجمل خان کی طبی لیاقت اور حذاقت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ’قیصر ہند‘ اور‘حاذق الملک‘ جیسے ذی وقار اور معزز خطابات سے نوازا تھا لیکن محب الوطن حکیم اجمل خان نے ان خطابات کو واپس کر دیا تو جمعیۃ علماء نے اپنے اجلاس کانپور میں انہیں قوم کی طرف سے ’مسیح الملک‘ کے خطاب سے سرفراز کر دیا۔

حکیم محمد اجمل خان کا انتقال 28 اور 29 دسمبر 1927 کی درمیانی رات کو ہوا، جس کے بعد انہیں حضرت رسول نما کے احاطہ میں سپرد لحد کیا گیا۔


اگرچہ مسیح الملک حکیم اجمل خان اپنی غیر معمولی طبی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے مگر جنگ آزادی میں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں لیکن ستم بالائے ستم جنگ آزادی کے اس عظیم سپاہی کا تصویری خاکہ ملک بھر میں ’امرت مہوتسو‘ کے جشن کے زیر اہتمام کہیں بھی آویزاں نظر نہیں آتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔