منموہن سنگھ: وہ وزیرِاعظم جن کے دور میں حقوق مضبوط ہوئے، جنہیں آج کمزور کیا جا رہا ہے

منموہن سنگھ کے دورِ حکومت میں کام، تعلیم، خوراک اور اطلاعات جیسے ٹھوس حقوق دیے گئے، جنہیں موجودہ حکومت کمزور کر رہی ہے، جبکہ منموہن سنگھ نے کبھی ذاتی تشہیر کو سیاست کا ذریعہ نہیں بنایا

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ
i
user

ہرجندر

ہندوستان کی سیاست میں نام بدلنے کی روایت کوئی نئی نہیں، مگر موجودہ حکومت نے اسے ایک منظم حکمتِ عملی کی شکل دے دی ہے۔ نریندر مودی حکومت نے جس طرح مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا) کے نام کو بدل کر ’’وی بی–جی رام جی‘‘ کیا، وہ محض ایک لسانی تبدیلی نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی چال کی مثال ہے۔ گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران اس حکومت کے طرزِ حکمرانی میں اس نوعیت کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ مسئلہ صرف نام کی تبدیلی تک محدود نہیں رہا، بلکہ منموہن سنگھ حکومت کی اس سب سے ہمہ گیر اور عوامی فلاحی اسکیم کی روح اور ساخت کو بھی بتدریج بدل کر اسے غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی گئی۔

یہ امر بھی محض اتفاق نہیں کہ منریگا کے ساتھ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پہلی برسی منائی جا رہی تھی۔ 26 دسمبر کو ان کا انتقال ہوا تھا اور اسی پس منظر میں ان کی پالیسیوں اور وراثت پر نظر ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے

اگر منموہن سنگھ اور نریندر مودی کے درمیان فرق کو مزید واضح طور پر سمجھنا ہو تو ایک اور اہم مثال پر غور ضروری ہے۔ عام لوگوں کو سستی اور معیاری ادویات فراہم کرنے کے مقصد سے 2008 میں ’’بھارتیہ جن اوشدھی یوجنا‘‘ شروع کی گئی تھی۔ اس کے تحت ملک بھر میں جن اوشدھی مراکز قائم کیے گئے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کو دواؤں کے اخراجات سے نجات مل سکے۔

2014 میں مودی حکومت نے اس اسکیم کا نام بدل کر ’’پردھان منتری بھارتیہ جن اوشدھی پروجنا‘‘ رکھ دیا۔ اس کے بعد یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ ہر جن اوشدھی مرکز پر وزیرِاعظم کی تصویر آویزاں ہو۔ نام کا اختصار ہندی میں ’’بھاجپ‘‘ اور انگریزی میں ’’بی جے پی‘‘ بنتا تھا، جسے نئے لوگو میں بھگوا رنگ کے ساتھ نمایاں کیا گیا۔ اس طرح سستی دواؤں کی اسکیم بتدریج عوامی فلاح کے بجائے وزیرِاعظم اور حکمراں جماعت کی تشہیر کا ذریعہ بنتی چلی گئی۔ اخبارات، ویب سائٹس، یوٹیوب ویڈیوز اور واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ عوام کو سستی دوائیں فراہم کرنے کا سہرا موجودہ حکومت کے سر ہے، حالانکہ اس اسکیم کی بنیاد ایک دہائی قبل رکھی جا چکی تھی


اگر منموہن سنگھ حکومت کی اسکیموں کی فہرست تیار کی جائے تو شاید ہی کوئی ایسی اسکیم ملے جس کے نام کے ساتھ وزیرِاعظم کا لاحقہ لگا ہو۔ اس کے برعکس مودی حکومت کی بیشتر اسکیمیں ’’پردھان منتری‘‘ کے عنوان کے بغیر نامکمل محسوس ہوتی ہیں۔ رفتہ رفتہ ہر اسکیم وزیرِاعظم کی تصویر اور تشہیر کا ایک نیا موقع بن گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ منموہن سنگھ دور کی دو درجن سے زائد اسکیموں کے نام تبدیل کیے گئے، مگر ان تبدیلیوں میں اصل روح کہیں پیچھے رہ گئی۔

یہی منموہن سنگھ کا طرزِ حکمرانی تھا۔ انہوں نے کبھی خود کو نظام سے بڑا ثابت کرنے یا اپنی ذات کو مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اداروں کی حدود میں رہ کر کام کرتے تھے اور خود کو ان پر مسلط کرنے کے بجائے انہیں آزاد فضا فراہم کرتے تھے۔ جب کوئی رہنما اداروں کو آزادی دیتا ہے تو انہیں مسائل کے حل کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں مجموعی قومی پیداوار کی شرحِ نمو اوسطاً آٹھ فیصد رہی، اور 2010–11 میں یہ شرح 10.08 فیصد تک جا پہنچی۔

اس پہلو کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران، جب پوری دنیا شدید کساد بازاری کی زد میں تھی، ہندوستان ان چند ممالک میں شامل تھا جہاں اس بحران کا اثر نسبتاً کم رہا۔ اس کے برعکس 2020 میں کووڈ وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران، جب عالمی معیشت سست روی کا شکار ہوئی، ہندوستان ان ممالک میں شامل تھا جہاں اس کا اثر کہیں زیادہ گہرا ثابت ہوا۔

2006 میں اپنے ایک خطاب میں منموہن سنگھ نے کہا تھا: ’’معاشی ترقی کو ہمہ گیر ہونا چاہیے، اسے سب سے غریب آدمی کی زندگی تک پہنچنا ہوگا۔‘‘ اسی سوچ کے تحت نہ صرف فلاحی اسکیمیں شروع کی گئیں بلکہ پہلی بار شہریوں کو ٹھوس حقوق دیے گئے۔ کام کا حق، جس کی بنیاد پر منریگا وجود میں آیا؛ تعلیم کا حق؛ خوراک کا حق، جس کے تحت آج بھی ملک کی ایک بڑی آبادی کو مفت غذائی اجناس ملتی ہیں؛ اور حق اطلاعات قانون جس نے حکمرانی میں شفافیت کی راہیں کھول دیں۔


ان فیصلوں کو کسی انتخابی حکمتِ عملی کے تحت نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اثرات زمینی سطح پر کہیں زیادہ مضبوط اور دیرپا ثابت ہوئے۔ تندولکر کمیٹی کے تخمینے کے مطابق، منموہن سنگھ کے دس سالہ دور میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کا تناسب 37.2 فیصد سے گھٹ کر 21.9 فیصد رہ گیا۔

اس کے باوجود منموہن سنگھ نے کبھی ان کامیابیوں کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی۔ بائیں بازو کی جماعتیں آج بھی کہتی ہیں کہ منریگا ان کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ کئی سول سوسائٹی تنظیمیں تعلیم کے حق کا سہرا اپنے سر باندھتی ہیں۔ لال کرشن آڈوانی نے یہ دعویٰ کیا کہ اطلاعات کے حق کا بنیادی خاکہ انہوں نے وزیرِداخلہ کے طور پر تیار کیا تھا، جبکہ خوراک کے حق کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے جوڑا جاتا ہے۔ منموہن سنگھ نے کبھی ان دعوؤں کی تردید نہیں کی۔ ان کا یقین مخالفین کے سوالات اور دعوؤں کی آبرو رکھنے میں تھا۔

موجودہ دور کے ان رہنماؤں کے برعکس جو سرخیاں سمیٹنے اور تالیاں بجوانے کو سیاست سمجھتے ہیں، منموہن سنگھ ایک ایسے سیاست داں تھے جو اعداد و شمار اور معقول دلائل کی بنیاد پر فیصلے کرتے تھے۔ وہ وقتی مقبولیت کے بجائے طویل المدتی نتائج کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا: ’’مستقبل انہی کا ہوتا ہے جو اپنے خوابوں کی خوب صورتی پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ منموہن سنگھ نے نہ صرف خوابوں پر یقین کیا بلکہ انہیں حقیقت میں ڈھالنے کے لیے ہندوستان کو مضبوط بنیاد بھی فراہم کی۔