اسپیکر صاحبہ، قتل روز ہوں گے تو ان کی مخالفت بھی روز ہوگی اور ماتم بھی

اسپیکر صاحبہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ رکبر پر بحث ہو جانے سے منوج، راجو، عمران اور راشد پر حملے کا حساب پورا نہیں ہو گیا۔ ایک ہی طرح کے ’جرم‘ پر پچھلے دن ہوئی بحث میں ہی نئے جرم کو نہیں سمیٹا جا سکتا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اپوروانند

اگر قتل روز ہوں گے تو ان کا ماتم بھی روز ہوگا اور مخالفت بھی روز ہوگی کیونکہ قتل الگ انسان کا ہوا ہے۔ جو کل مارا گیا تھا وہ کوئی اور شخص تھا، کسی اور کا والد، بھائی، بیٹا، دوست تھا اور جو آج مارا گیا وہ کسی اور کا بھائی، بیٹا، والد اور دوست ہے۔ ایک شخص کے مارے جانے کا مطلب ہے رشتوں کی ایک الگ دنیا کا خاتمہ۔ اس کے علاوہ یہ بھی یاد رہے کہ میں ہندوستان کی آئین میں اپنی حیثیت کے ساتھ رہتا ہوں، میرا حق میرا ہے، میری زندگی میری اپنی ہے اور اسے کسی بھی وجہ سے کسی اور کو ختم کرنے کا حق نہیں ہے۔ اب تک ہندوستان میں یہ نہیں کہا گیا کہ میرا وجود میرے مذہب اور ذات میں جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر کل میرے مذہب کا کوئی مارا گیا اور اس کے لیے اظہارِ غم کیا گیا تو میرے جانے پر اظہارِ غم یا ناراضگی کو یہ کہہ کر منع نہیں کر سکتے کہ یہ جو مارا گیا یہ تو اسی طرح کا ہے جو کل مارا گیا تھا، پھر نئی ناراضگی اور اظہارِ غم کیوں! وقت کی بربادی کیوں!

یہ دلائل سمترا مہاجن کے ہیں۔ وہ روزانہ پیٹ پیٹ کر مارے جا رہے نئے شخص کے نام پر لوک سبھا میں روزانہ ہنگامے سے عاجز آ گئی معلوم ہوتی ہیں۔ ایک ہی بات کتنی بار کریں گے آپ۔ انھوں نے ٹھیک یہی کانگریس کے پارٹی سے کہا جو رکبر کے قتل کے بعد ہوئی بحث کے اگلے دن ایک ایسا ہی نیا واقعہ پر پھر سے بحث چاہتے تھے۔ سمترا مہاجن نے کہا ’’ہو تو گیا، حکومت نے اپنا رخ صاف تو کر دیا، پھر بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں تو کیا کریں!‘‘ سمترا مہاجن یہیں نہیں رکیں، انھوں نے آگے کہا ’’کیا بھیڑ کے ذریعہ کیے جا رہے تشدد اور قتل پر ہی بات کرتے رہیں اور باقی کام دھندا چھوڑ دیں!‘‘ اسپیکر صاحبہ کو حکومت کی بڑی ذمہ داریوں اور اس کے کام کے بڑے دائرے کا احساس ہے۔ اس لیے وہ اس کا وقت ایک ہی طرح کی بحث میں برباد نہیں کرنا چاہتیں۔

’’آپ بھی بول لیجیے، پیٹ بھر جائے آپ کا بھی‘‘ ایسا ہی کچھ کہا سمترا جی نے ملکارجن کھڑگے سے جو اگلے دن بھی بولنا چاہتے تھے۔ اس ایشو پر چیئر کے قریب پہنچ کر ناراضگی ظاہر کرنے کے غیر اخلاقی طریقے کے سبب انھوں نے 5 ممبران پارلیمنٹ کو 5 دن کے لیے ایوان سے باہر بھی کر دیا۔

اسپیکر صاحبہ! جب ملک میں روز کسی نہ کسی جگہ کسی کا خون بہہ رہا ہو، اور وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہے، تو ایسے میں ایوان کا وقار، حکومت کی مصروفیت اور وسیع جوابدہی، اخلاقی اور غیر اخلاقی کے سوالات فضول ہیں۔ بہانہ کوئی بھی ہو سکتا ہے: آج گائے کے اسمگلنگ کا ہے، کل گائے کے گوشت کا ہے، پرسوں ہندو لڑکی کو ورغلا کر اس سے شادی کرنے کا ہے، اس کے اگلے دن کھلی جگہ پر نماز پڑھنے کی ضد ہے!

جو مارا گیا اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس تشدد میں بچ گئے۔ جن پر حملہ ہوا اور جو مارے نہ جا سکے۔ ان کی ذلت اور شرمندگی کا احساس کسی دوسرے کو ہونا مشکل ہے۔ قاسم مارے گئے اور سمیع الدین حملے کے باوجود بچ گئے۔ آپ اس بے عزتی کے بارے میں سوچیں جو انھیں روز اسی راستے سے گزرتے ہوئے ہوتا ہوگا جہاں ان پر حملہ کرنے والے اب بھی فخر کے ساتھ ٹہل رہے ہیں۔

منوج کمار، محمد راجو، محمد عمران، محمد راشد بچ گئے۔ مارے جا سکتے تھے۔ اور وہ راجستھان کے الور سے دور تھے، مغربی اتر پردیش کے ایک گاؤں مندھاتی میں۔ وہ زندہ گائے بھی نہیں لے جا رہے تھے کہ ان پر اسمگلنگ کا الزام لگتا۔ وہ مری ہوئی گائے لے جا رہے تھے کیونکہ وہ چمڑا اتارنے کا کام کرتے ہیں۔ ان میں جو نام مسلمان کا نہیں لگتا اسے ہندو کہنا غلط ہوگا۔ وہ دلت کا نام ہے۔ کل کو یہ کہا جائے گا کہ اسے غلطی سے مسلمان سمجھ لیا تھا، اس لیے اس پر حملہ ہو گیا۔

اسپیکر صاحبہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ رکبر پر بحث ہو جانے سے منوج، راجو، عمران اور راشد پر حملے کا حساب نہیں ہو گیا۔ ایک ہی طرح کا الزام یا ’جرم‘ اور ایک ہی طرح کے شکار کی دلیل سے پچھلے دن ہوئی بحث میں ہی نئے جرم کو نہیں سمیٹا جا سکتا۔ ذرا غور کریں تو اسپیکر کے ایسا کہنے کے پیچھے کے دماغ کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ دماغ ہمیں اور آپ کو الگ الگ خصوصیت والے انسان کے طور پر قبول نہیں کرتا۔ یہ خاصیت ہمیں شخص بناتی ہے جس کی پہچان کو کسی ایک اجتماعی یا طبقاتی پہچان میں بھلا نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یہ دماغ ہمیں صرف ایک طبقہ کے ایک اور چہرے کی شکل میں دیکھتا ہے۔ اس لیے وہ آپ کا نام لینے کی جگہ آپ کو ایک ہندو یا مسلمان، یا عیسائی کہہ کر ہی پکارنا چاہے گا۔

ان سبھی قتل اور حملوں میں ایک بات واضح ہے۔ سب الگ الگ تھے لیکن مارا انھیں ایک ہی وجہ سے گیا کہ وہ مسلمان تھے۔ اور حملوں کی جغرافیائی جگہیں الگ الگ ہیں، مارنے والے بھی الگ الگ ہیں، لیکن انھیں پرتشدد بنانے والا نظریہ ایک ہے اور اسے ایک تنظیم پروس رہا ہے اور اس کی تشہیر کر رہا ہے۔ اس نظریہ کو ماننے والی پارٹی بھی ایک ہی ہے جو آج ہندوستان پر قابض ہے۔ تعجب نہیں کہ اس کے لیڈر یا وزیر ہر حملے کے بعد کسی نہ کسی طرح حملے کو جائز ٹھہرا دیتے ہیں، اس کی ایک وجہ تلاش لیتے ہیں اور مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ وہ اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو حملوں کو روکنا مشکل ہوگا کیونکہ ان کی وجہ سے ہندوؤں کا خون کھول اٹھتا ہے۔ اس طرح انھوں نے ہندوؤں کا بھی ایسا ایک کل ہند گروپ تیار کر لی ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی اینٹ اور گارے سے بنتا ہے۔

اگر ہم ہر حملے کے بعد، ہر قتل کے بعد روز نہ بولیں تو یہ قتل اور تشدد کی ثقافت ہماری جلد کے اندر سما جائے گی اور کسی قتل پر کبھی ہمارا دل نہیں کانپے گا۔ کیا ہم خود کو اس قسم کے بے حس سماج میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Jul 2018, 9:00 PM