لوک سبھا انتخابات: یوپی میں ہندوتوا سیاست کا کوئی اثر نہیں، نہ مودی لہر نظر آ رہی اور نہ بھگوا لہر!

پی ایم مودی اور بی جے پی کی جانب سے ’ہندوتوا‘ کو سیاست کے مرکز میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن اتر پردیش میں لوک سبھا انتخابات 2024 کے دوران کوئی ’بھگوا یا مودی‘ لہر نظر نہیں آ رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی /&nbsp; تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

پی ایم مودی / تصویر: آئی اے این ایس

user

اسد رضوی

وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے ’ہندوتوا‘ کو سیاست کے مرکز میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن اتر پردیش میں لوک سبھا انتخابات 2024 کے دوران کوئی ’بھگوا یا مودی‘ لہر نظر نہیں آ رہی ہے۔

ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ہندوتوا اور مودی کے نام پر ووٹ دے چکے عام کے لئے اب 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بڑھتی مہنگائی، کم ہوتے روزگار کے مواقع، مہنگی تعلیم، خواتین اور دلتوں بڑھتے مظالم وغیرہ اہم مسائل ہیں۔

طلباء کا کہنا ہے کہ ایک طرف وہ بڑھتی ہوئی فیس سے پریشان ہیں اور دوسری طرف ان سے احتجاج درج کرانے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیس میں اضافہ اور اسکالرشپ جیسے ایشوز پر تحریک نہ چلائی جا سکے اس لئے یونیورسٹی احاطوں کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

طلباء رہنما آیوش کہتے ہیں کہ تقریباً تمام یونیورسٹیوں (مرکزی اور ریاستی دونوں) میں تعلیم مہنگائی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق اس حکومت میں الہ آباد یونیورسٹی میں فیس میں 400 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ لکھنؤ یونیورسٹی میں اسکالرشپ کبھی وقت پر نہیں آتی اور سیلف فنانس کورسز شروع ہو رہے ہیں، جو بہت زیادہ فیس والے ہیں۔

اکنامکس میں ایم اے کر کے لاء کی پڑھائی کی تیاری کر رہے، آیوش مانتے ہیں کہ مودی حکومت نے مولانا آزاد اسکالرشپ ختم کر کے اقتصادی طور پر کمزور مسلم و دیگر اقلیتوں کی اعلیٰ تعلیم پر برا حملہ کیا ہے۔ ایک دیگر طالب علم پرنس پرکاش کا کہنا ہے کہ جب طلباء فیس میں اضافہ اور اسکالرشپ جیسے مسائل پر تحریک چلاتے ہیں تو ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے اور ان کو فرضی مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی تو تحریک کو یونیورسٹی معطل کر کے ان کو ہاسٹل سے نکال دیا جاتا ہے۔

تاریخ کے طالب علم پرنس پرکاش مزید کہتے ہیں کہ حکومت کی تاناشاہی کی جھلک ریاست کی یونیورسٹیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت میں آنے کے بعد سے یونیورسٹیوں سے جمہوریت ختم ہو رہی ہے۔


نوجوانوں کے روزگار کے مواقع کم ہونے سے بھی ناراضگی ہے۔ ان کا کہنا ہے دو کروڑ نوکریوں کا وعدہ کر کے بی جے پی اقتدار میں آئی تھی اور مودی ان کو ٹھیک سے 20 لاکھ نوکریاں بھی نہیں دے سکے۔ وہ روزگار کے بحران کو مودی حکومت کی ناکامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

گریجویشن کے طالب علم اشونی کمار کا ماننا ہے کہ بی جے پی مذہب کی سیاست کر کے اصل مسائل سے بھٹکا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملازمتیں فراہم کرنا تو دور کی بات، حکومت درحقیقت ملازمتوں کو تباہ کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی مثال اگنی ویر ہے، مودی حکومت میں فوج (آرمی، نیوی اور ایئر فورس) کی سروس کی مدت صرف چار سال رہ گئی ہے۔

لکھنؤ یونیورسٹی کے نکھل کا کہنا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے بعد تعلیم بہت مہنگی ہو گئی ہے اور پچھلے کچھ سالوں سے اسکالرشپ بھی ملنا مشکل ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے علاوہ پروفیشنل کورس کرنے کے بعد بھی نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی اور سرکاری ملازمتوں کے کاغذات لیک ہو جاتے ہیں۔ اس طرح نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔

نوجوان طلباء کا کہنا ہے کہ مہنگی تعلیم کے باعث معاشی طور پر کمزور طلبہ مستقبل میں تعلیم سے محروم رہیں گے جس سے ملک میں ناخواندگی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔

طالب علم وریندر کمار کا کہنا ہے کہ وہ لوک سبھا انتخابات 2024 میں مرکز میں ایک نئے آپشن کی تلاش میں ہیں۔ جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کر رہے وریندر کمار کے مطابق پچھلی کئی دہائیوں میں مسابقتی امتحانات کے اتنے پرچے لیک نہیں ہوئے جتنے بی جے پی حکومت کے 10 سال کے دوران ہوئے تھے۔

ریاست میں 69000 اساتذہ کی بھرتی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی حکومت میں ریزرویشن ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے تاکہ دلت، پسماندہ طبقات اور قبائلیوں کو ان کے ملازمت کے حق سے محروم رکھا جائے۔ اور تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں۔

ریاست کی خواتین میں بھی حکومت کے خلاف عدم اطمینان دیکھا جا سکتا ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کے علاوہ وہ سرکاری صحت کی سہولیات سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس مہنگائی میں اپنے بچوں کو پڑھا رہی ہیں لیکن ملازمتوں میں کمی کے درمیان وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہیں۔


بی جے پی جس فائدہ اٹھانے والے طبقے کی بات کرتی ہے، ان میں بھی اب یہ بات چل رہی ہے کہ انہیں پانچ کلو اناج نہیں بلکہ نوکری کی ضرورت ہے۔ اجوالا اسکیم کے تحت گیس حاصل کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سلنڈر بھرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ خواتین کا الزام ہے کہ جنسی ہراسانی کے زیادہ تر معاملات میں بی جے پی حکومت ملزمان کی حمایت کرتی ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کہکشاں کا کہنا ہے کہ اس وقت خواتین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے جس کی وجہ سے گھریلو تشدد بڑھ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور خواتین کی حفاظت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ صرف سنکلپ پتر تک محدود ہے۔

کہکشاں کے مطابق حکومتی دعوؤں کی پرواہ کیے بغیر، اگر 100 لوگ سرکاری اسکیموں کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دیتے ہیں تو صرف ایک یا دو کو ہی کچھ ملتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مہاجر مزدوروں کو سرکاری اسکیموں کا سب سے کم فائدہ مل رہا ہے۔

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ حکومت جس پانچ کلو مفت اناج کی بات کرتی ہے اس کا معیار بہت خراب ہوتا جا رہا ہے۔ بعض اوقات مستحقین میں پلاسٹک کے چاول تقسیم کیے جاتے ہیں۔

گاؤں کی ایک خاتون مایا کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں پران پرتشٹھا کی سجاوٹ کے لیے سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کیے گئے اور دیہات میں اسکول اور سڑکیں وغیرہ ابھی تک خستہ حال ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں بھی ڈاکٹر باہر کی دوا تجویز کرتے ہیں، جنہیں لینا عام دیہاتی کے لیے مشکل ہوتا ہے۔

وہ بی جے پی سے اپنی ناراضگی کی وجہ بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کافی بھاگ دوڑ کے بعد انہیں اپنے اور اپنی بیٹی کے لیے بنایا گیا ’آیوشمان بھارت‘ کارڈ ملا ہے۔ لیکن جب ان کی بیٹی کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تو انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق لکھنؤ کے لوہیا اسپتال میں آپریشن کے وقت بتایا گیا کہ یہ کارڈ ہڈیوں کے علاج کے لیے نہیں ہے۔

بی جے پی کی طرف سے خواتین کو بااختیار بنانے پر مایا کہتی ہیں کہ پارٹی کی حکمرانی میں خواتین کو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں کیسے بھیجا جائے گا جہاں خواتین کے خلاف مقدمات درج نہیں ہیں۔


انتخابات سے قبل دلتوں پر استحصال کا مسئلہ بھی ایک مرتبہ پھر سے طول پکڑ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ مسئلہ انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بابا بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی بی بی اے یو میں سیکورٹی اہلکاروں کے ذریعہ دلت طلباء کی پٹائی کے بعد ماحول گرم ہے۔

اس کے علاوہ ہردوئی کے کیسری پور گاؤں میں امبیڈکر جینتی کے موقع پر نصب ڈاکٹر امبیڈکر کے مجسمے کو ہٹائے جانے پر دلت برادری میں غصہ ہے۔ بی بی اے یو میں 17 اپریل کو یونیورسٹی انتظامیہ کی موجودگی میں دلت طلباء کی پٹائی کے بعد سے دلت طلباء یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کر رہے ہیں۔

دلت طلباء کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے کیمپس میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا ماحول ہے۔ تازہ ترین واقعہ اس وقت سامنے آیا جب امبیڈکر جینتی پروگرام کے دوران دلت طلبہ کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ساؤنڈ سسٹم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن جب اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے رام نومی کے موقع پر کیمپس میں ساؤنڈ سسٹم چلایا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

اس سے ناراض ہو کر جب دلت طالبہ 17 اپریل کو وائس چانسلر سے شکایت کرنے گئی تو وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروں نے اس کا پیچھا کیا اور مار پیٹ کی۔ اتنا ہی نہیں ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کی شکایت پر چار دلت طلباء کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ لیکن دلت طلباء کی درخواست پر سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔