بھوک انسان کو باغی بنا دیتی ہے!

عوام کے تازہ مینڈیٹ کے بعد مودی اور ان کے جوڑی داروں کو اپنے تکبر سے توبہ کر لینی چاہئے جو ایوان اقتدار کے خود ساختہ بھگوان بن بیٹھے تھے

<div class="paragraphs"><p>نریندر مودی / Getty Images</p></div>

نریندر مودی / Getty Images

user

نواب علی اختر

اٹھارہویں لوک سبھا کے حالیہ اختتام پذیر انتخابات اور اس کے نتائج کئی معنوں میں یادگار رہے ہیں۔ ان انتخابات کو کانگریس کی قیادت والے ’انڈیا اتحاد‘ کے لئے تاریخی کہا جا سکتا ہے جس میں اس نے غیر متوقع کامیابی حاصل کی ہے اس کا سہرا کانگریس لیڈر گاندھی کے سر باندھا جائے گا جنہوں نے خون منجمد کر دینے والی سردی کی پروا کئے بغیر دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں نفرت کے خلاف لوگوں میں محبت بھرنے کے لئے سڑک پر اترنے کا فیصلہ کیا۔ یہ پیدل یاترا کوئی عام ’پد یاترا‘ نہیں تھی بلکہ ایک قومی لیڈر کے ذریعہ سڑک پر اترنا اور کئی ہزار کلومیٹر پیدل چل کر عام لوگوں سے ملنا اور انہیں محبت کا پیغام دے کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے والا وہ اہم قدم تھا جسے پورے ملک نے قبول کیا۔

دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان کثیر المذاہب ملک ہے اور یہاں مہذب لوگ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی سیاح بھی ہندوستان آتے ہی اپنا طرز زندگی بدل لیتے ہیں مگر افسوس کچھ داخلی مفاد پرستوں نے ہندوستان کے اس منفرد ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور انتہا پسند سیاستدانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھائی کو بھائی، دوست کو دوست سے لڑا کر وطن عزیز کا خوبصورت چہرہ بگاڑنے لگے۔ حد تو تب ہو گئی جب ووٹ کے بھوکے حکمراں پارٹی کے لیڈر شرپسندوں کی سرپرستی کرنے لگے۔ یہ لوگ بھول گئے تھے کہ نفرت انگیزی سے کسی کا پیٹ بھرنے والا نہیں ہے اور جب بھوکے پیٹ سے آواز نکلتی ہے تو وہ بغاوت ہوتی ہے جس کا آج بی جے پی کو سامنا ہے۔

دھیان رہے کہ عام لوگ جب غیر سماجی باتیں کرتے ہیں تو اس میں کسی قسم کا غصہ، رنجش اور انتقام کار فرما ہوتا ہے مگر جب یہی حرکتیں ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ جیسے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے لوگ کرنے لگیں تو اسے ملک اور عوام دشمنی ہی کہا جائے گا کیونکہ وزیر اعظم پارٹی، ذات، فرقہ کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے اسی طرح وزیر اعلیٰ پر بھی پوری ریاست کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان عہدوں پر براجمان لوگوں کا ہر عمل عوام کے لیے ہونا چاہئے جو سیاسی اخلاقیات کا لازمی جزء ہے۔ لیکن مذکورہ لیڈران اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ انہوں نے ایک طبقہ کو فرقہ پرستی کی جو ٹانک دی ہے وہ ہمیشہ کام کرے گی۔ مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ بھوک انسان کو باغی بنا دیتی ہے۔

آج ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ بھوک، بے روزگاری، مہنگائی ہر طرف منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے عام لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔ آخرکار دیر سے ہی سہی عام لوگوں نے اپنے اسی غصہ کو ظاہر کیا ہے جس کی وجہ سے نفرت کے ٹانک پر تکیہ کرنے والے لوگ آج آسمان سے زمین پر آ کر ان پارٹیوں کے رہنماؤں کے سامنے بھی ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں، جنہیں وہ کبھی خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے۔ اس سب کا کریڈٹ کانگریس پارٹی کے لیڈر راہل گاندھی کو جاتا ہے جو بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ عام آدمی کو دیئے گئے فرقہ پرستی کے ٹانک کا نشہ اتارنے میں کامیاب رہے۔


اب نریندر مودی نے مسلسل تیسری بار ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے لیکن وہ سیاسی لحاظ سے پہلے کے مقابلے کافی کمزور ہوں گے۔ مودی کو اب بی جے پی کی متنازعہ پالیسیوں اور اقدامات کے سلسلے میں توازن برقرار رکھنا پڑے گا۔ اتحادیوں کی طرف سے دباو کی وجہ سے وہ ایسا کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ اسی طرح بی جے پی کو اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے کئی یکطرفہ وعدوں کو بھی التوا میں ڈالنا پڑ سکتا ہے۔ ان میں لیبر قوانین میں اصلاحات شامل ہیں۔ مودی حکومت نے سرمایہ کاروں کے لیے متعدد اصلاحات کا وعدہ کیا تھا جس کی اپوزیشن جماعتیں شدید مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس سے صرف چند سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ووٹروں نے ہندوستان کو اور بالخصوص اس کی جمہوریت اور آئین کو ایک بدتر صورت حال میں جانے سے بچا لیا ہے۔ یہ بی جے پی کی پالیسیوں کو مسترد کرنے کا بھی بڑا ثبوت ہے۔ مودی جو دیوتا کا روپ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، رائے دہندگان کی بڑی تعداد کو احساس ہو گیا ہے کہ یہ دیوتا بھی ایک عام انسان ہے جس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ یہ طئے ہو گیا تھا کہ عوام بی جے پی کو اقتدار سونپنے والے نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے ہندو مسلم کی سیاست کرنے کو ترجیح دی اور یہ امید کی گئی تھی کہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کی بدولت وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ تاہم ایسا ہوا نہیں۔ بی جے پی بلکہ مودی اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

یہ الگ بات ہے کہ 2014 اور 2019 میں بی جے پی کو بطور سنگل جماعت سادہ اکثریت مل گئی تھی۔ لہٰذا اگر این ڈی اے نہ بھی ہوتا تو بی جے پی کے اقتدار کو کوئی بقائی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ چنانچہ مودی اور ان کے دستِ راست امیت شاہ نے جم کے دونوں بار این ڈی اے کو اعتماد میں لیے بغیر تمام اہم فیصلے کیے۔ لیکن اب ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کے نعرے کی ہوا نکل گئی ہے۔ نعرہ تو اس بار’ اب کی بار چار سو پار‘ کا بھی لگایا گیا مگر بی جے پی کی سیٹیں گزشتہ انتخابات کے مقابلے کافی کم ہیں۔ لہٰذا بی جے پی اتحادیوں کو خوش رکھے بغیر پانچ برس کی مدت پوری نہ کر پائے گی۔ عوام کے تازہ مینڈیٹ کے بعد مودی اور ان کے جوڑی داروں کو اپنے تکبر سے توبہ کر لینی چاہئے جو ایوان اقتدار کے خود ساختہ بھگوان بن بیٹھے تھے۔

مودی کی زندگی پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے گجرات میں بطور وزیر اعلیٰ 13 برس اور مرکز میں 10 برس بادشاہ سلامت کی طرح جو چاہا وہ کیا اور خود کو سپر مین جانا۔ بقول مودی، کبھی کبھی تو لگتا ہے مجھے بھگوان نے کوئی خاص کام لینے کے لیے پیدا کیا ہے۔ جو صلاحیت مجھے بخشی گئی ہے وہ ایک عام انسان سے زیادہ ہے۔ اب اس ’خاص انسان‘ کو ناقابل تسخیر برانڈ مودی کی چمک ماند پڑنے کے بعد لوک سبھا میں اپوزیشن کی مضبوط دیوار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس شخص نے 10 برس میں ایک بھی پریس کانفرنس کا سامنا نہیں کیا اب اسے یہ ثابت کرنے کی آزمائش درپیش ہے کہ وہ بادشاہ سلامت نہیں بلکہ ایک ایسا نیتا ہے جو مخلوط حکومت برقرار رکھنے کے لیے ’پلٹو رام‘ جیسے پیادوں کے سامنے بھی ہاتھ جوڑ سکتا ہے۔


اگرچہ انتخابی نتائج سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان نے چین کا سانس لیا ہے۔ مگر پچھلے 10 برس میں متوسط طبقہ کو بی جے پی نے جس طرح فرقہ پرستی کا ٹانک پلایا ہے، اس کے اثرات راتوں رات زائل ہونا ممکن نہیں ہے۔ بی جے پی نے اپنی دو میعاد کے دوران تعلیمی نصاب کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگ دیا۔ ملک کی آن بان شان کی حفاظت کے لئے مسلمان مجاہدین آزادی کی تاریخ کو درسی کتابوں سے حذف کر دیا۔ جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا کو سنگھی نظریات پر اندھا یقین رکھنے والے صحافیوں کے ذریعے بھگوا رنگ چڑھا دیا ہے۔ مگر بدلے ہوئے حالات میں جب نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے والے راہل گاندھی کو اپوزیشن لیڈر بنایا گیا ہے، امید کی جا سکتی ہے کہ فرقہ پرستی اپنی موت آپ مر جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔