ہندو مذہب کی غلاظت ہی ’ہندوتوا‘ کا چندن ہے!

پرگیہ کو آگے لا کر بی جے پی نے اس اندھی افرا تفری پر مہر لگائی ہے جو اپنے فرائض کی انجام دہی میں بیش قیمتی جان قربان کرنے والے جانباز پولس افسر کو بھی کھلنائک بنا سکتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

وطن عزیز ہندوستان میں ہر پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات کی تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ حکمرانوں کی سیاست کس سطح تک جا سکتی ہے۔ انتخابی سرگرمیوں کے درمیان حزب اختلاف جہاں اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے وہیں برسراقتدار پارٹی اپنی سابقہ کارکردگی یا مستقبل میں اگر کچھ ’ممکن ہے‘، بتانے کی جگہ صرف گاندھی خاندان پر اپنی ’بھڑاس‘ نکالتی نظر آ رہی ہے۔ گویا اس کے پاس ایسا بتانے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں جس کی بنیاد پر عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔ مرکز کی نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدارمیں آخر کوئی کام تو ایسا کیا ہوگا جس کے نام پرووٹ مانگ سکے یا پھر ہندوتوا کی ڈفلی بجا کر ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ حالانکہ موجودہ وقت میں ’راشٹر بھکتوں‘ نے ہندوتوا کو بھی کئی زمروں میں تقسیم کردیا ہے۔ اصل ہندوتوا عام ہندوؤں کا ہے جس میں مذہبی رواداری پائی جاتی ہے، وہیں آر ایس ایس کا اپنا ’الگ‘ ہندوتوا ہے جس کی پیروی بی جے پی اوراس کی حلیف تنظیمیں کر رہی ہیں اوراس میں صرف اور صرف مندر کے نام پر سیاست ہے۔ اس کے علاوہ دیکھا جائے تو آر ایس ایس کے ہندوتوا میں کسی بھی دیگر مذاہب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

آر ایس ایس کے ہندوتوا میں انتہا پسندی سرفہرست ہے اور اسی کو ترجیح دی جاتی ہے، خواہ وہ کتنا ہی داغدار ہو۔ ہندو مذہب کی غلاظت ہی ان کے لئے چندن ہے! ہندوتوا کی سیاست، ہندو مذہب کی غلاظت کے اخراج کو چندن کی طرح پیشانی پر ملتی ہے۔ دہشت گردی جیسے سنگین الزام میں کئی سالوں تک جیل میں قید رہنے کے بعد ضمانت پر باہر آنے والی نام نہاد سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال سے امیدوار بنا کر بی جے پی نے پھر یہی ثابت کیا ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ بی جے پی نے پرگیہ کو بھوپال سے امیدوار بنا کر یہ پرکھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہندوتوا کے نام پر ہندوؤں کو اور کتنے نیچے تک لے جا سکتی ہے۔ بی جے پی نے پریس کانفرنس کر کے اسے ’ہندوؤں کو بدنام کرنے کی کوشش کا جواب‘ بتایا ہے۔ جبکہ غور سے دیکھیں تو ہندوتوا کے نام پر یہ امیدواری خود میں ہندوؤں کی بدنامی کی بنیاد ہے۔


پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے حال ہی میں 2008 ممبئی دہشت گردانہ حملے میں شہید جانباز پولس افسر ہیمنت کرکرے سے متعلق جو بیان دیا ہے اس پر آئی پی ایس ایسو سی ایشن سمیت ملک بھر سے سخت رد عمل ہوا ہے۔ مگر بی جے پی ہندوتوا کے نشے میں اپنا ذہنی توازن اس قدر کھو چکی ہے کہ اسے صرف ’تلک‘ نظر آ رہا ہے۔ تلک کے پیچھے کے آدمی آنکھ موندے ہوئے ہے۔ پرگیہ کا ملک کے لئے صرف اتنا تعاون ہے کہ اس کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ یہ دہشت گردانہ کرتوت ہندو مذہب کے نام پر مسلمانوں کے تئیں بغض و عناد سے متاثر ہو کر کی گئی تھی، جس بغض کو آر ایس ایس-بی جے پی کی ہندووادی سیاست نے بے شمار لوگوں کے دماغ میں جگہ دے کر انہیں زہریلا بنایا ہے۔ غور طلب ہے کہ ہندوستان جیسے متنوع سماج نے آر ایس ایس کے ہندوتوا کو کبھی منظور نہیں کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان اور بھگوان کے درمیان آ کر سرٹفکیٹ دینے والے ایجنٹ کا کردار نبھانے والی بی جے پی نے طاقت کے زور پر آر ایس ایس کے ہندوتوا کو جبراً منوانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے آج کثیرالمذاہب ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اپنے آخری دن گن رہی ہے۔

پرگیہ سنگھ کو آگے لا کر بی جے پی نے اس اندھی افراتفری پر مہر لگائی ہے جوحقیقی اور مثالی حب الوطنی سے متاثر ہو کر اپنے فرائض کی انجام دہی میں بیش قیمتی جان قربان کرنے والے جانباز پولس افسر کو بھی کھلنائک بنا سکتی ہے۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر خود کو سنیاسنی بتاتی ہیں جب کہ انہیں کے کاغذات نامزدگی میں پیش تفصیلات کے مطابق ان کا نام پرگیہ سنگھ بنت سی پی سنگھ ہے۔ جبکہ سنیاس لیتے وقت شخص اپنا اور اپنے اہل خانہ کو پیچھے چھوڑ کر اپنی شناخت اورتعلقات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر لیتا ہے۔ پرگیہ سنگھ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا اور 2007 میں انہیں سوامی پورنا چیتنا نندگری کا نام دیا گیا۔ پھر بھی پرگیہ سنگھ کو اپنے نام اور شناخت سے اتنا لگاؤ کیوں ہے؟ ہیمنت کرکرے کے تئیں غصہ اور ذاتی نفرت کو اجاگر کرکے پرگیہ سنگھ نے ایک ہندوتوا کی زہرآلود خاتون کے کردار کو ظاہرکیا ہے، نہ کہ سنیاسنی کا۔ سناتن دھرم کی روایات کا مذاق اڑانے کے بعد بھی، کیا سماج کو انہیں ہندوتوا کی علمبردار کے طورپر قبول کرنا چاہئے؟


جب سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے بھوپال سے نامزدگی داخل کی ہے، میرے ذہن میں کچھ سوال اٹھ رہے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پربھی دوستوں سے اپنے تجسس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی مگرسبھی نے خاموشی کے علاوہ کوئی رائے نہیں دی۔ مجھے لگتا ہے کہ خود کو ہندوتوا کی علمبردار کے طور پر پیش کرنے والی پرگیہ سنگھ نے سناتن دھرم کے اقدار کا جتنا مذاق بنایا ہے، شاید ہی کسی سنیاسی نے بنایا ہو۔ بھارتی سناتن روایت کے مطابق جب کوئی شخص سنیاس لیتا ہے تو وہ اپنے نام کی قربانی دیتا ہے، گھریلو پوشاکوں کی قربانی دیتا ہے، تمام خاندانی تعلقات کی قربانی دیتا ہے، دولت و ثروت کی قربانی دیتا ہے، اپنی خواہشات کی قربانی دیتا ہے، ازدواجی زندگی کی خواہشات کی قربانی دیتا ہے، عہدہ و گھر کی قربانی دیتا ہے، معبود سے لو لگانے کے لیے مسلسل پوجا پاٹھ کر کے دیکشا اور پیغامات کی تشہیر کرتے ہوئے علم تقسیم کر کے زندگی بسر کرتا ہے۔ مگر یاد رکھنا ہوگا کہ پرگیہ آر ایس ایس کے ہندوتوا کی سنیاسنی ہیں جس میں حب الوطنی کی مثال قائم کرنے والے پولس افسر کو بھی تباہ و برباد ہونے کا ’شراپ‘ بھی دیا جاتا ہے۔ بہرحال موجودہ انتخابات میں ہندوستان کی فتح ہوتی ہے یا آر ایس ایس کے ہندوتوا کی، یہ تو آنے والے نتائج سے ہی پتہ چلے گا مگر ان سب سے زیادہ عوام کی سوچ کا امتحان ہوگا اوریہ دیکھا جائے گا کہ گاندھی کے ہندوستان کو انتہا پسندی چاہئے جس کی بنیاد خود غرضی، مفاد پرستی ہے یا مذہبی رواداری جس میں ملک اور قوم دونوں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔