شیر اور مور کی لڑائی، ٹیپو سلطان کو بھی گھسیٹ لیا گیا

اس میں کوئی شک نہیں درگاہوں میں مور پنکھ کا استعمال ہوتا ہے۔ خاص طور پر زائرین کے سروں پر اس سے چھپاکے دیے جاتے ہیں۔ البتہ مسجدوں میں مور پنکھ کا استعمال نہیں ہوتا یا ہوتا ہوگا تو کہیں کہیں

ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان
user

سہیل انجم

سیاست داں جو کچھ نہ کر دکھائیں۔ اب شیر اور مور کی لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ اس لڑائی میں ٹیپو سلطان کو بھی گھسیٹ لیا گیا ہے۔ بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے مطالبہ کر دیا ہے کہ ان مسجدوں اور درگاہوں پر چھاپے مارے جائیں جہاں مور کے پروں کے پنکھے جھلے جاتے ہیں یا جہاں مور پنکھ سے جھاڑو دی جاتی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ریاست کرناٹک میں یہ جو نئی لڑائی شروع ہوئی ہے وہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل جائے گی۔ یوں بھی انتخابات کا سیزن ہے اور بی جے پی کے رہنماؤں کو ایشوز کی تلاش ہے۔ لہٰذا اسے ایک ایسا ایشو بنانے کی کوشش کی جاستی ہے جس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

ہوا یوں کہ کرناٹک کی پولیس نے ٹی وی پر آنے والے ایک پروگرام بگ باس میں شرکت کرنے والے ایک امیدوار سنتوش کمار کو شیر کے پنجوں والا لاکٹ پہننے پر گرفتار کر لیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ وائلڈ لائف قانون یعنی جنگلات سے متعلق قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر شیر کے پنجوں والا لاکٹ پہننا جرم ہے تو پھر مسجدوں اور درگاہوں اور خاص طور پر مسلم اداروں میں مور کے پروں کا استعمال بھی جرم ہے۔ ایک معاملے میں جنگلات سے متعلق قانون نافذ کیا جا رہا ہے تو دوسرے معاملے میں بھی نافذ کیا جائے۔


ہبلی دھارواڑ (مغرب) کے بی جے پی ایم ایل اے اروند بیلاڈ نے مور پنکھ کے استعمال پر درگاہوں اور مسجدوں پر چھاپے ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے بنگلور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک کی حکومت صرف ہندوؤں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ جبکہ درگاہوں اور مسجدوں میں ہمارے قومی پرندے مور کے پروں کا خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ خود وزیر اعلیٰ سدھار میا بھی درگاہوں اور مسجدوں میں جاتے ہیں۔ انھوں نے بھی وہاں مور پنکھ کا استعمال دیکھا ہوگا۔ وہ محکمہئ جنگلات کے افسران کو ان مقامات پر چھاپے مارنے کا حکم کیوں نہیں دیتے۔ میں اس بارے میں حکومت کو ایک خط لکھنے والا ہوں۔

اسی درمیان کرناٹک کے ماحولیات و جنگلات کے وزیر ایشو رکھانڈرے نے کہا ہے کہ جو لوگ وائلڈ لائف آئٹم رکھے ہوے ہوں وہ محکمۂ جنگلات کے پاس جمع کرا دیں۔ یعنی جنگلی جانوروں کے اعضا والی اشیا جمع کرا دیں۔ ان کا کوئی مصرف نہیں ہے اور انھیں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ ان کے مطابق حکومت نے 2003 ہی میں ایسی اشیا کے لیے سرٹی فکٹ ایشو کرنا بند کر دیا ہے۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بی جے پی لیڈروں کے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ حکومت عام لوگوں کو تو پریشان کر رہی ہے لیکن بااثر لوگوں جیسے کہ فلمی شخصیات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔


یاد رہے کہ وائلڈ لائف پروٹکشن ایکٹ 1972 کے مطابق جنگلی جانوروں کے اعضا سے بنی ہوئی اشیا کا رکھنا اور ان کا مظاہرہ کرنا جرم ہے۔ مذکورہ وزیر کے مطابق محکمہ جنگلات نے گزشتہ برسوں میں اس سلسلے میں عوامی بیداری کا کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن اب کیا جا رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم نے چھ بااثر شخصیات کے گھروں کا دورہ کیا ہے جن میں سیاست داں اور فلمی شخصیات بھی شامل ہیں۔ جبکہ محکمہ جنگلات کے افسران کا کہنا ہے کہ وہ قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور ان سے اشیا لے کر ان کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ اگر یہ اشیا جنگلی جانوروں کے اعضا کی پائی گئیں تو ان لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا۔

اب جبکہ یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ اگر شیر کے پنجوں والے لاکٹ پہننے پر کارروائی ہو رہی ہے تو مور پنکھ کے استعمال پر کیوں نہیں ہو رہی، شیر میسور ٹیپو سلطان کو بھی اس بحث میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ٹیپو سلطان کی ایک تصویر بہت معروف ہے جس میں وہ ایک شیر سے لڑ رہے ہیں۔ ان کا فقرہ بھی بہت مشہور ہے کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ اب اس تصویر کو وائرل کیا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ایک اور تصویر وائرل ہو رہی ہے۔یہ تصویر ہے جنوبی ہند کے ایک طاقتور خاندان ہویسالہ کے نشان کی جس میں ایک شخص کو شیر مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔


حالانکہ اس معاملے میں ٹیپو سلطان کو گھسیٹنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ صدیوں پرانا واقعہ ہے۔ وہ وقت کوئی زیادہ دور نہیں گیا ہے جب شیر کے شکار کی اجازت تھی اور راجے مہراجے شیر کا شکار کیا کرتے تھے۔ ٹیپو سلطان کے بہت بعد تک شیر کا شکار ہوتا رہا ہے۔ آج سابق راجاؤں کے بہت سے خاندانوں میں شیر کی کھال کا استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔ ہاتھی کے دانت کا بھی خوب اور نمایاں مظاہرہ ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان کی مذکورہ تصویر کو وائرل کرنے کا مقصد اس معاملے کو فرقہ وارانہ رگ دینا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں درگاہوں میں مور پنکھ کا استعمال ہوتا ہے۔ خاص طور پر زائرین کے سروں پر اس سے چھپاکے دیے جاتے ہیں۔ البتہ مسجدوں میں مور پنکھ کا استعمال نہیں ہوتا یا ہوتا ہوگا تو کہیں کہیں۔ البتہ ہم نے بچپن میں یہ ضرور دیکھا ہے کہ ماہ محرم کے پہلے عشرے میں تعزیہ کو مور کے پروں والے پنکھے سے جھلا جاتا تھا۔ شاید اب بھی ایسا ہوتا ہوگا۔ اگر مور کا شکار بھی جنگلات کے قانون کے تحت جرم ہے تو پھر بی جے پی ایم ایل اے کا مطالبہ کوئی بہت زیادہ غلط نہیں ہے۔ درگاہوں کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ مور پنکھ کا استعمال بند کر دیں۔ ورنہ خواہ مخواہ ایک ایسا تنازع پیدا ہو جائے گا جس کا نقصان بہرحال مسلمانوں کو ہی ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اس معاملے کو ایک سیاسی تنازع بنا کر اس سے انتخابی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔