مرکزی لسانی پالیسی پر ریاستوں کی رسہ کشی، مہاراشٹر کا یوٹرن، نئی بحث کا آغاز
مہاراشٹر میں اسکولوں میں ہندی کو لازمی بنانے کا فیصلہ عوامی اور سیاسی دباؤ پر واپس لے لیا گیا۔ ماہرین نے تدریسی معیار کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے، جبکہ مرکز پر وضاحت کی مانگ بڑھ رہی ہے

مرکزی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت ریاستوں میں زبانوں کے انتخاب پر نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے 16 اپریل کو اعلان کیا تھا کہ پہلی جماعت سے آگے ہندی کو لازمی مضمون بنایا جائے گا، تاہم محض ایک ہفتے میں عوامی اور سیاسی دباؤ کے بعد یہ فیصلہ 22 اپریل کو واپس لے لیا گیا۔
وزیراعلیٰ، وزیر تعلیم اور ریاستی تعلیمی تحقیقاتی ادارے نے اپنے اعلان کو سائنسی اور قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق قرار دیا تھا، مگر لسانی مشاورتی کمیٹی کے سخت اعتراضات نے حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
ریاستی حکومت کی لسانی مشاورتی کمیٹی نے حکومت سے اس نوٹیفائی شدہ پالیسی کو واپس لینے کا مطالبہ کر کے تنازع کو سلجھا لیا۔ سخت لہجے میں لکھے گئے خط میں کمیٹی نے بتایا کہ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی دو لازمی زبانیں، مراٹھی اور انگریزی بھی مناسب طریقے سے نہیں پڑھائی جا رہی ہیں۔ دو لسانی پالیسی کی عملیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کمیٹی نے 'انیول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ' (اے ایس ای آر) کے ایک مطالعے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک میں 31 فیصد طلبہ اپنی مادری زبان میں پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیسری زبان شامل کرنے کے بجائے تدریس اور اساتذہ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تعلیم کے وزیر دادا بھوسے نے دلیل دی ہے کہ چونکہ مراٹھی اور ہندی دونوں میں ایک ہی دیوناگری رسم الخط کا استعمال ہوتا ہے اور ان کا جملہ ڈھانچہ ایک دوسرے سے کافی مشابہ ہے، اس لیے ‘متبادل’ تیسری زبان کے طور پر ہندی کو نافذ کرنا آسان ہوگا۔ ان کے اس استدلال نے کچھ مراٹھی بولنے والوں کو حیران کر دیا کہ کیا ہندی بولنے والی ریاستیں بھی اپنے اسکولوں میں مراٹھی کو تیسری زبان کے طور پر رائج کرنے کے لیے یہی دلیل استعمال کریں گی؟
تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے مہاراشٹر کی پسپائی کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے سہ لسانی فارمولے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تمل ناڈو میں اختیار کی گئی دو لسانی پالیسی کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور اسے تبدیل کرنے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں۔ اسٹالن نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ کیا مرکزی حکومت باضابطہ طور پر مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کی اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ مراٹھی کے علاوہ کوئی دوسری زبان تیسری زبان کے طور پر لازمی نہیں ہوگی؟ اگر ایسا ہے تو کیا مرکز تمام ریاستوں کو یہ واضح ہدایت جاری کرے گا کہ نئی تعلیمی پالیسی (این ای پی) میں تیسری زبان کی لازمی تعلیم ضروری نہیں ہے؟ اور کیا مرکزی حکومت تمل ناڈو سے وہ 2,152 کروڑ روپے واپس کرے گی جو اس بنیاد پر روک لیے گئے تھے کہ ریاست کو تیسری زبان کے لازمی نفاذ پر رضامند ہونا چاہیے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسکولوں میں ہندی کو لازمی بنانے کی پالیسی سیاسی مقاصد سے متاثر تھی۔ اس کے پس پشت فڈنویس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی یہ کوشش تھی کہ برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کے انتخابات سے قبل ممبئی میں موجود 45 لاکھ ہندی بولنے والوں تک رسائی حاصل کی جائے۔ ایم این ایس اور شیو سینا (یو بی ٹی) کی طرف سے سخت مخالفت حکومت کے لیے غیر متوقع تھی۔
ریاست میں انگریزی اور ہندی میڈیم اسکولوں کو ترجیح دیے جانے کے نتیجے میں مراٹھی میڈیم اسکولوں اور بی ایم سی کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ پچھلے 10 برسوں میں بی ایم سی کے تحت چلنے والے 106 مراٹھی میڈیم اسکول بند ہو چکے ہیں۔ اس کے برعکس 30 ہندی، 58 انگریزی اور 5 اردو میڈیم اسکول کھولے گئے ہیں۔ ریاست بھر میں 17,500 مراٹھی اسکول بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔ اس کی باضابطہ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان اسکولوں میں سے ہر ایک میں 20 طلبہ بھی مراٹھی پڑھنے کا انتخاب نہیں کرتے، جس کی وجہ سے مراٹھی اساتذہ کی تقرری ناقابل عمل ہو جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لسانی مشاورتی کمیٹی اور ریاست کے سابق وزیر تعلیم دیپک کیسکر دونوں نے واضح کیا ہے کہ ہندی پہلے ہی جماعت پنجم سے ہفتم تک لازمی مضمون ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ طلبہ جماعت اول سے پنجم تک مادری زبان میں تعلیم حاصل کریں، جماعت ششم سے ہشتم تک انگریزی میں اور اس کے بعد کسی تیسری زبان میں مہارت حاصل کریں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مرکزی وزیر تعلیم تیسری زبان کے سلسلے میں موجود ابہام کو دور کریں۔ انہیں اسٹالن کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دو لسانی فارمولے کے نفاذ کا باقاعدہ آڈٹ کرایا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔