اصول و ضوابط کو نظر انداز کر اڈانی کی جھولی میں ڈالی جا رہی زمین... رشمی سہگل

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اڈانی ایس ای زیڈ بندرگاہ اور بجلی پلانٹ میں 1.32 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود ان سے صرف 38875 ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ یعنی فی ملازمت 3.38 کروڑ روپے۔

<div class="paragraphs"><p>اڈانی گروپ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

رشمی سہگل

گزشتہ چند سالوں کے دوران اڈانی گروپ نے کتنی زمینیں حاصل کی ہیں، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ آئیے، اس کی ایک فہرست بناتے ہیں۔

6 اکتوبر کو 170 ایکڑ پر پھیلی سہارا سٹی کو سیل کر کے لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو سونپ دیا گیا۔ یہ سبرت رائے کی ذاتی ٹاؤن شپ ہے جس میں ہیلی پیڈ، ریسٹورینٹ اور گیسٹ ہاؤس شامل ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ وہ 88 سے زائد سہارا کی جائیدادوں میں سے ایک ہے، جنہیں اڈانی گروپ خریدنے والا ہے۔ اس میں مہاراشٹرا میں 8,810 ایکڑ پر واقع ’ایمبے ویلی‘ سٹی بھی شامل ہے۔


11 ستمبر کو بہار حکومت نے بھاگلپور میں ایک ہزار ایکڑ زمین اڈانی گروپ کو سالانہ ایک روپے فی ایکڑ کی شرح پر سونپ دی۔ یہ زمین کئی سال پہلے این ٹی پی سی کے لیے حکومت نے حاصل کی تھی۔ ممبئی میں اڈانی گروپ کو پہلے ہی کئی عوامی جائیدادیں سپرد کی جا چکی ہیں، مثلاً ہوائی اڈہ، 180 ایکڑ کی ایئر انڈیا کالونی، دیونار ڈمپنگ گراؤنڈ کے کچھ حصے، بھانڈوپ، کانجرمارگ، وکرولی، مالوانی میں پلاٹ وغیرہ۔ حتیٰ کہ 255 ایکڑ کے نمک باغان (جو ماحولیاتی طور پر اہم ہے) کو بھی نہیں چھوڑا۔ یہ سب ’دھاراوی بازآبادکاری پروجیکٹ‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ 7 جون کو کانگریس رکن پارلیمنٹ ورشا گائیکواڈ نے کرلا میں ’مدر ڈیری‘ کی ملکیت والی زمینوں کو الاٹ کیے جانے کی مخالفت میں ایک بڑے مظاہرہ کی قیادت کی۔ اب مبینہ طور پر اس گروپ کی نظریں ریلوے کی زمینوں پر ہیں۔

اڈیشہ کے کوراپوٹ ضلع میں ہزاروں قبائلیوں نے اس سال مارچ میں بالدا ناگیشور پہاڑی کو اڈانی گروپ کو الاٹ کرنے کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پہاڑی کی نیلامی گرام سبھا کی رضامندی کے بغیر کی گئی۔ اڈانی گروپ کی معاون کمپنی ’مندرا ایلومینیم‘ بالدا بلاک کے لیے پسندیدہ بولی لگانے والی کمپنی تھی۔ اندازہ ہے کہ بالدا میں 2.213 کروڑ ٹن باکسائٹ کا ذخیرہ موجود ہے۔


اڈانی گروپ کی دوسری معاون کمپنی ’کلنگا ایلومینیم‘ نے ’بھیجا موجا‘ میں ایک اور پروجیکٹ کے لیے ماحولیاتی اجازت طلب کی ہے۔ 6 مارچ کو ایک عوامی سماعت میں اڈیشہ آلودگی کنٹرول بورڈ کے حکام نے کہا کہ مناسب عمل درآمد ہوا، لیکن گاؤں والوں اور پنچایت رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے۔ اڑیہ اخبارات نے بتایا کہ مرکزی وزارت ماحولیات و جنگلات نے ویدانتا گروپ کو دی گئی منظوری واپس لے لی تاکہ اڈانی خاندان کو خوش کیا جائے۔ ویدانتا نے مارچ 2023 کی نیلامی میں یہ بلاک حاصل کیا تھا، لیکن ریاستی حکومت تبدیل ہونے کے بعد جولائی 2025 میں اس کی منظوری منسوخ کر دی گئی۔

چھتیس گڑھ میں ہسدیو علاقہ کے بنیادی باشندے گونڈ اور اراؤں قبیلوں نے سرگوجا اور سورج پور ضلعوں میں اڈانی کی ’پرسا اوپن کاسٹ مائن‘ پروجیکٹ کے لیے 841 ہیکٹر جنگلی زمین مختص کرنے کی منظوری کی مخالفت کی۔ ان کا الزام ہے کہ ان کی رضامندی والے دستخط جعلی ہیں۔


مہاراشٹرا کے کلیان ضلع میں اڈانی گروپ کی کمپنی ’امبوجا سیمنٹ‘ نے ’نیشنل ریون کمپنی‘ کی زمین پر سیمنٹ گرائنڈنگ پلانٹ لگانے کی کوشش کی، جس کی مقامی برادری نے مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پلانٹ زراعت کو متاثر کرے گا اور فضائی و آبی آلودگی میں اضافہ کرے گا۔ دراصل حکومت نے قوانین بدل ڈالے ہیں جس سے ماحولیاتی منظوری بے معنی ہو چکی ہے۔

مہاراشٹر کے چندپور ضلع کی زمین کو کوئلہ، معدنیات اور چونا پتھر کے ذخائر کے لیے جانا جاتا ہے۔ اگست 2022 میں امبوجا سیمنٹ اور دیگر کارخانوں کے قلعہ ’گھڑچندور‘ کو ماحولياتی منظوری مل گئی۔ اس کے فوراً بعد اڈانی گروپ نے امبوجا سیمنٹ کو خرید لیا۔ 2024 میں ’کمپنی کے لوگ‘ آئے اور کسانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی زمینیں 35 لاکھ روپے فی ایکڑ پر فروخت کر دیں۔ پتہ چلا کہ ان کے پلاٹ کسی ایک کمپنی (امبوجا سیمنٹ) کو نہیں بلکہ 13 مختلف کمپنیوں کو فروخت کیے گئے تھے، لیکن سبھی ایک ہی پتہ پر رجسٹرڈ تھیں: 104 رامسُکھ ہاؤس، شیواجی نگر، پونے۔ یہ تمام 13 کمپنیاں ’روچا گروپ‘ کی ہیں۔ حالانکہ ’امبوجا سیمنٹ‘ کی ماحولیاتی منظوری میں کسانوں کے لیے معاوضہ و امداد، متبادل زمین، کمرشیل ٹریننگ اور 5 لاکھ روپے فی خاندان کی یکمشت امداد شامل تھی۔ لیکن 2024 میں روچا گروپ کے ذریعہ زمین خریدنے پر ان شرائط کو منسوخ کر دیا گیا۔ 2025 میں امبوجا نے روچا گروپ کو مبینہ طور پر 298.61 کروڑ روپے میں خرید لیا۔


مرکزی حکومت لداخ میں بدامنی کا الزام بیرونی طاقتوں (پاکستان اور چین) پر لگاتی ہے، لیکن مقامی لوگ اسے مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ 26 ستمبر کو پرامن بھوک ہڑتال کے دوران گرفتار سرگرم سماجی کارکن سونم وانگچک نے کہا کہ 2019 میں لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ کا درجہ ملا، لیکن انہیں خدشہ تھا کہ یہ خطہ زمین اور وسائل کے کارپوریٹ استحصال کے لیے غیر محفوظ ہو جائے گا۔ وانگچک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے تھے مرکز انہیں اپنی زمین، ثقافت اور ماحول بچانے کے لیے ’چھٹے شیڈول‘ کا حصہ بنائے۔ حکومت نے ماننے سے انکار کیا۔ وانگچک نے نام نہیں لیا لیکن تسلیم کیا کہ اڈانی گروپ کو اکثر اس علاقہ میں مجوزہ تجدید توانائی پروجیکٹ سے جوڑا گیا ہے۔

2023 میں لداخ کے دورے پر گئے راہل گاندھی نے ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’بی جے پی جانتی ہے کہ اگر آپ کو نمائندگی دی گئی، تو وہ آپ کی زمین چھین نہیں سکے گی۔ یہ سب زمین کے لیے ہے۔ وہ آپ کی زمین چھین کر اڈانی کو دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے پروجیکٹس لگا سکیں، لیکن آپ کو فائدہ نہیں پہنچائیں گے…۔‘‘


خیر، مدھیہ پردیش میں ہسدیو کے جنگلوں کی حفاظت پانچویں شیڈول کی منظوری سے بھی ممکن نہیں ہو پائی۔ 2023 میں جب اڈانی گروپ کو دھیرولی کوئلہ کانکنی پروجیکٹ کا اجازت نامہ ملا (جس میں 5 گاؤں کے تقریباً 3,500 ایکڑ جنگلات منتقل کرنا شامل تھا) تو وزارت کوئلہ نے لوک سبھا کو بتایا کہ یہ خطہ آئین کی پانچویں شیڈول اور قبائلی آبادی کے لیے ’جنگلات حقوق ایکٹ 2006‘ کے تحت محفوظ ہے۔ لیکن قبائلی حقوق اور آئینی تحفظ کو نظر انداز کیا گیا۔

رواں سال اگست میں گواہاٹی ہائی کورٹ کے جسٹس سنجے کمار میدھی کی ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوئی، جس میں وہ آسام کے ایک پورے ضلع (دیما ہساؤ)، جس میں تقریباً 3,000 بیگھا زمین تھی، کو ایک پرائیویٹ سیمنٹ کمپنی کو الاٹ کرنے پر برہم تھے۔ بعد ازاں اڈانی گروپ نے رسمی تردید جاری کرتے ہوئے کہا کہ بولی جیتنے والی ’مہابل سیمنٹ‘ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جیسا کہ ’نیوز لانڈری‘ نے بتایا، یہ دراصل ’وائرل کلپ سے بھی پرانا تنازعہ‘ تھا۔


’امبوجا سیمنٹ‘ کو چونا پتھر کی کانکنی کے لیے 1,200 بیگھا سے زیادہ زمین الاٹ کی گئی، جبکہ اس کی معاون کمپنی ’مہابل سیمنٹ‘ کو اُمرنگسو میں زمین دی گئی۔ دسمبر 2024 میں 22 گاؤں والوں نے اس الاٹمنٹ کو گواہاٹی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور الزام لگایا کہ دیما ہساؤ خودمختار کونسل نے مناسب عمل کو نظر انداز کیا۔ درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ یہ زمین قبائلی رسم و رواج کے مطابق کمیونٹی کی ملکیت ہے اور روایتی طور پر گاؤں کے بزرگ اس کا الاٹمنٹ کرتے آئے ہیں۔ یہ کیس ابھی گواہاٹی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

اس درمیان کوکراجھار میں بی ٹی آر حکومت نے جون 2025 میں عوام کے مشورہ کے بغیر اڈانی تھرمل پاور پروجیکٹ کے لیے 3,400 بیگھا زمین الاٹ کی، جس سے کشیدتی شدت اختیار کر گئی ہے۔


اڈانی پورٹ اور مُندرا ایس ای زیڈکو 3,585 ہیکٹر زمین خریدنے کی اجازت دی گئی، جس کی قیمت ایک روپے سے 32 روپے فی مربع میٹر طے کی گئی، جبکہ بازارا قیمت 1,500 روپے فی مربع میٹر سے بھی زیادہ تھی۔ ’فوربس‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اڈانی نے یہ زمین 30 سال کے رینیو ہونے والے پٹہ پر 1 امریکی سینٹ فی مربع میٹر کی شرح سے حاصل کی۔ بعد ازاں، اڈانی نے اسے انڈین آئل جیسی کمپنیوں کو 11 ڈالر فی مربع میٹر کی شرح سے سبلیٹ کر دیا۔

2009 کی وائبرینٹ گجرات کانفرنس میں ریاستی حکومت نے اڈانی گروپ کو 5 سال کے لیے 32 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چھوٹ فراہم کی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اڈانی ایس ای زیڈ نے بندرگاہ اور پاور پلانٹ میں 1.32 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود صرف 38,875 ملازمتیں پیدا کیں۔ یعنی ہر ملازمت کے لیے 3.38 کروڑ روپے کا خرچ ہوا، جو ممکنہ طور پر اب تک کا مہنگا ترین روزگار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔