’کے وائی سی‘ یا آفت؟... ابھے شکلا

پورا کے وائی سی نظام ایسا ہے جو اصول و ضوابط پر چلنے والے عام لوگوں کو ہی پریشان کرتا ہے، بینک اس معاملے پر سختی دکھاتے ہیں، لیکن اس سے ہوتا کیا ہے، بڑی ’مچھلیاں‘ تو آرام سے نکل جاتی ہیں!

علامتی، تصویر _uidai.gov.in
علامتی، تصویر _uidai.gov.in
user

ابھے شکلا

گزشتہ ہفتہ ہمارے یہاں حکومت نے ووٹر رجسٹریشن کیمپ لگایا۔ فارم 6 بھرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ اس کے لیے تو آدھار کارڈ کی کاپی لازمی ہے۔ آج کے دن جو قانون ہے اور جسے سپریم کورٹ نے بھی صاف لفظوں میں دہرایا ہے، اس کے مطابق ’آدھار‘ کی لازمیت پی ڈی ایس، منریگا، پردھان منتری غریب کلیان یوجنا، آیوشمان بھارت، سبسیڈی، اسکالرشپ جیسے کسی سرکاری منصوبہ یا چھوٹ کا فائدہ اٹھانے کے وقت ہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی ایجنسی چاہے وہ سرکاری ہی کیوں نہ ہو، کسی دیگر کام کے لیے ’آدھار‘ ہی دینے کے مطالبہ پر بضد نہیں رہ سکتی۔

ووٹر نامزدگی کوئی سبسیڈی یا حکومت کی طرف سے دی جانے والی سہولت نہیں ہے۔ یہ ایک حق ہے۔ لہٰذا اس کے لیے آدھار کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے یہاں پہنچے افسر نے کہا کہ اگر میں نے نہیں دیا تو میری درخواست خارج کر دی جائے گی۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات ماننی پڑی کیونکہ میں نے حال ہی میں اپنا گھر بدلا ہے اور میرے پاس پتہ کا کوئی ثبوت نہیں تھا جس کی بنیاد پر میں کاکس بازار کے کسی روہنگیا پناہ گزیں جیسا ہی تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جب بھی کوئی ووٹر کی شکل میں خود کو رجسٹر کرتا ہے تو اس کا ووٹر آئی ڈی اپنے آپ اس کے آدھار سے جڑ جاتا ہے۔


یہ حکومت کے ذریعہ اپنے ہی قوانین اور کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی سے متعلق واحد مثال نہیں ہے۔ آج اگر کوئی آدھار نہیں دے تو وہ کسی بھی سرکاری منصوبہ کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ حال ہی میں ایک آر ٹی آئی درخواست سے پتہ چلا ہے کہ انتخابی کمیشن نے اب تک 54 کروڑ ووٹرس کے آدھار نمبر لے لیے ہیں۔ کیوں؟

ابھی تک کوئی قانون نہیں ہے جو کہتا ہو کہ اسے ووٹر آئی ڈی سے جوڑا جانا ہیے، تو کمیشن لوگوں کا آدھار کیوں لے رہا ہے؟ اب تک جو اس نے نجی ڈاٹا کا ذخیرہ اکٹھا کر رکھا ہے، اس کا وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ آئے دن جو ڈاٹا لیک ہوتا رہتا ہے، اس کا کیا؟

لیکن فکر کی ایک بڑی وجہ پرائیویٹ اداروں کا بلااختیار ’آدھار‘ مانگنے پر بضد ہونا ہے۔ سِم دینے والی کمپنی ہو، ہوٹل ہو، کار ڈیلر ہو، بیمہ کمپنیاں ہوں یا پھر بینک۔ بینکوں نے تو آدھا رکو اپنے کے وائی سی عمل میں ہی شامل کر لیا ہے اور اس کے جمع نہ ہونے پر اکاؤنٹ فریز تک کر دیا جاتا ہے۔


’کے وائی سی‘ کا مطلب ہے اپنے گاہکوں کو جانیں، لیکن یقین کریں، بینک کو آپ کو جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کی دلچسپی آپ کے پیسے کو این پی اے ارب پتیوں کی بڑھتی جماعت تک پہنچانا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ، خاص طور پر جن کے پتے بدل گئے، عمر بڑھنے کے ساتھ جن کے دستخط کچھ بدل گئے ہیں، یا جو اپنے پاسورڈ بھول گئے ہیں، یا معذور ہیں، ان کے لیے کے وائی سی کسی آفت سے کم نہیں۔

ہر دس سال پر سرٹیفکیشن ہی کم پریشان کرنے والا نہیں تھا، لیکن اب تو آر بی آئی نے ہر تیسرے سال کے وائی سی کرانے کا انتظام کر دیا ہے۔ 60 سال سے اوپر تک کے ہو گئے تو یکے بعد دیگرے کئی جھنجھٹ۔ ہر چھ ماہ پر نیٹ بینکنگ پاسورڈ بدلیے، ہر سال زندہ ہونے کا ثبوت دیجیے، ہر تین سال پر ڈیبٹ کارڈ بنوائیں، ہر پانچ سال پر ڈرائیونگ لائسنس بنوائیں۔ اب تو ہر دس سال میں پین کارڈ کو ’اَپڈیٹ‘ کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔ بھلے ہی کسی تفصیل میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ اب کسی بھی طرح کے بیمہ پر بھی کے وائی سی کو لازمی کر دیا گیا ہے۔ کیا کسی نے یہ جاننے کی کبھی کوشش کی ہے کہ اس طرح کی کے وائی سی کا کچھ فائدہ ہوا بھی ہے یا نہیں؟


اور اس پورے ضمن میں اس امر پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ بھلے ہی آپ اور مجھے یہ ثابت کرنے میں پسینے چھوٹ جائیں کہ ہم بدمعاش نہیں ہیں اور اپنے ٹیکس اور قرض کی قسط کی وقت پر ادائیگی کرتے ہیں، اصلی بدمعاش بڑے آرام سے حکومت کو لوٹتے رہتے ہیں۔ جس طرح سیزن کے آخر میں مختلف مصنوعات کے سیل لگائے جاتے ہیں، ویسے ہی بینک ہر سال لاکھوں کروڑ روپے بٹہ کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جو ہمارے اور آپ کے ہی پیسے ہوتے ہیں۔ 2014 سے بینکوں نے 12 لاکھ کروڑ روپے کے قرضوں کو بٹہ کھاتہ میں ڈالا ہے جو اوسطاً 2 لاکھ کروڑ روپے سالانہ بیٹھتا ہے۔ ریکوری ریٹ صرف 13 فیصد ہے۔

ان لوگوں کے لیے کوئی کے وائی سی کیوں نہیں ہے؟ کیا ایسا سرٹیفکیشن صرف ان کھاتوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے جو مشتبہ معلوم پڑ رہے ہوں یا پھر جنھوں نے کبھی کسی طرح کا کوئی ڈیفالٹ کیا ہو؟ آخر کروڑوں لوگوں کو بے وجہ پریشان کرنے کا مطلب؟

ایک دیگر کیٹگری ہے -خود بینکر- جنھیں نئے، مجرمانہ-مرکوز کے وائی سی کے ماتحت ہونا چاہیے، جیسا کہ چندا کوچر (آئی سی آئی سی آئی) اور رانا کپور (یس بینک) کے معاملے ثابت کرتے ہیں۔ دو باتوں پر غور کریں۔ پہلی یہ کہ بیشتر سینئر بینک افسران کے اپنے بڑے قرضداروں کے ساتھ بہتر روابط ہوتے ہیں۔ اور دوسری یہ کہ بینکوں سے ریٹائر ہوتے ہی یہ بینک سی ای او پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کو جوائن کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب؟ خاص طور پر پبلک سیکٹر کے بینکوں کے سی ای او کے معاملے میں یہ بات زیادہ کھری ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ این پی اے کا بڑا حصہ انہی پرائیویٹ سیکٹر بینکوں کے پاس ہے؟ وزیر مالیات محترمہ، ان ’قابل‘ لوگوں کے لیے پرائیویٹ سیکٹر میں سروس دینے پر کم از کم دو سال کا کولنگ آف پیریڈ کا انتظام کیسا رہے گا؟


سرکاری ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ آپ میرے جیسے عام لوگ سب سے اچھے اور ڈسپلن اکاؤنٹ ہولڈر ہیں۔ کریڈٹ/ڈیبٹ کارڈ ہولڈرس، کسان اور فصل قرض، گھر اور کار قرض لینے والوں میں ڈیفالٹ کی شرح سب سے کم ہے۔ سب سے بڑے ڈیفالٹر اور دھوکہ باز کاروباری اور کارپوریٹ قرض داروں میں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کیا یہ آر بی آئی اور بینکوں کے لیے بہتر نہیں ہوگا کہ وہ تنخواہ والوں، پنشن والوں، اپنا روزگار کرنے والوں، کسانوں کی جگہ ان لوگوں پر توجہ مرکوز کرے؟ کیا ان لوگوں نے مینجمنٹ کے 80:20 اصول کے بارے میں نہیں سنا ہے، کہ اپنی 80 فیصد کوشش 20 فیصد گاہکوں پر مرکوز کرنی چاہیے جنھیں واقعی میں درست کرنے کی ضرورت ہے؟

بینکوں نے اپنے طرح کے ہی جال کا ایجاد کر رکھا ہے جو چھوٹی مچھلیوں کو پکڑتا ہے اور بڑی مچھلیوں کو نکل جانے دیتا ہے۔ کوئی بھی صنعت اس غیر متوازن اور بے کار اصول پر کام نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ بینک ہر گزرتے سال کے ساتھ اندھیرے کنویں میں گہرائی تک دھنستا جا رہا ہے۔

دوستوں، بعد میں مت کہنا کہ آپ کو متنبہ نہیں کیا گیا تھا۔ کے وائی سی کے بغیر آپ کنگال ہیں، اور آدھار کارڈ کے بغیر آپ ہیں ہی نہیں۔ اگر آپ ان لوگوں میں ہیں جو 70 سال کی عمر تک پہنچ چکے ہیں، تو اپنے بٹوے میں ہمیشہ آدھار کارڈ کی ایک کاپی رکھیں اور اگر اپنی آخری رسومات کے لیے کچھ تیاری کر رکھی ہے تو ایک کاپی اس کے لیے بھی رکھ دیں، کیونکہ بغیر ’آدھار‘ نہ تو دفنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی آخری رسومات ادا کی جا سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ، وہ آپ کو ایک ممی بنا دیں گے اور آپ کو چھپا کر رکھیں گے تاکہ بعد میں آپ کی پہچان کی جا سکے۔

(مضمون نگار ابھے شکلا سبکدوش آئی اے ایس افسر ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔