علمی اداروں پر جہالت کا دباؤ، خطرے میں جمہوریت کی بنیاد

جمہوریت کی بقا کے لیے تعلیم میں تنقیدی، سائنسی اور کثرت پسند نظریے کی ضرورت ہے، مگر آج تعلیمی اداروں میں تنگ نظری، سیاسی مداخلت اور مذہبی تعصب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ اے آئی</p></div>

تصویر بشکریہ اے آئی

user

روپ ریکھا ورما

انسانی تہذیب نے ایک طویل اور مشکل سفر طے کیا ہے جس نے اسے قبائلی معاشرے سے نکال کر ایک کثیرالشناخت، ہم دردی، انصاف اور سائنسی سوچ رکھنے والا معاشرہ بنایا۔ اس ارتقا میں سب سے اہم قدم جمہوریت کی جانب سفر تھا، جو اس شاہی نظام سے بالکل متضاد تھا جس میں حکمران کو خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا اور عوام کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔

جمہوریت کی سب سے جامع تعریف یہ ہے کہ یہ عوام کا، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے نظام ہے لیکن اس نظام کو عملی طور پر نافذ کرنا ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے، خاص طور پر اس معاشرے میں جو مختلف شناختوں اور طبقات پر مشتمل ہو۔ جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر فرد کو برابر کا حق حاصل ہو، چاہے اس کی کوئی بھی سماجی، مذہبی یا نسلی شناخت ہو۔ اس مقصد کے لیے آئین اور قوانین بنائے جاتے ہیں تاکہ مساوات اور انصاف یقینی بنایا جا سکے۔

یہ باتیں اگرچہ سب جانتے ہیں لیکن جو بات اکثر فراموش کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت میں سب سے بڑی ذمہ داری بھی عوام پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر جمہوریت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہے، تو عوام کو چاہیے کہ وہ حکومت اور ریاستی اداروں پر نظر رکھیں، ان کی کارکردگی سے باخبر رہیں اور احتساب کا عمل جاری رکھیں۔ اگر ایسا نہ ہو، تو جمہوریت کمزور اور کھوکھلی ہو جاتی ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو تعلیم، آئینی علم، سائنسی سوچ، تنقیدی شعور اور اپنے حقوق سے باخبر کیا جائے۔ ایک ایسا ماحول قائم کیا جائے جہاں ہر فرد آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکے اور ڈر کے بغیر اپنی فکرمندی سامنے رکھ سکے۔

یہ سب ممکن تبھی ہو سکتا ہے جب ایک ایسی تعلیمی پالیسی ہو جو سائنسی اور تنقیدی فکر پیدا کرے۔ ایسی تعلیم جو غیرجانبدار، وسیع النظر اور اختلاف رائے کا حوصلہ دینے والی ہو، جمہوریت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، شاہی یا آمرانہ نظام ایسے شعور کو خطرہ سمجھتا ہے۔ لیکن چونکہ جمہوریت میں عام انسان ہی اس کا محافظ ہوتا ہے۔ یہاں تعلیم کا سوال ملک کے لیے زندگی کا سوال بن جاتا ہے۔


افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اس شعور کو پیدا کرنے کی کوششیں کبھی مکمل طور پر سنجیدگی سے نہیں لی گئیں۔ اگرچہ کچھ مثبت تبدیلیاں ہوئیں لیکن نظام مجموعی طور پر قدامت پسند رہا۔ اس وجہ سے تعلیم میں وسعت اور پسماندہ طبقات کی شمولیت کے باوجود جمہوری شعور اس حد تک نہیں پھیل سکا جس کی ضرورت تھی۔

تقریباً ایک دہائی پہلے تک ان خامیوں کو دور کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ حکومت ان مطالبات پر کچھ حد تک عمل بھی کر رہی تھی۔ مگر گزشتہ دس گیارہ سالوں سے صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ آج وہی مطالبات حکومت کو دشمنی جیسے لگنے لگے ہیں۔ تعلیمی فلسفہ اب جمہوری فلسفے سے متصادم ہو چکا ہے۔ سائنسی اور کثرت پسند سوچ کی جگہ اب تنگ نظر، غیر سائنسی اور مذہبی تعصبات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تعلیم کا مقصد ہی بدل دیا گیا ہو۔ ایسے ادارے جہاں مستقبل کے رہنما پیدا ہوتے ہیں، وہاں اب ماضی پرستی اور بند آنکھوں سے مانے جانے والے عقائد کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ قومی وحدت اور آفاقی اقدار کی جگہ فخر اور تنگ نظری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ آزاد سوچ پر بندشیں لگائی جا رہی ہیں۔ نصاب سے غالب اور ٹیگور جیسے عظیم ادیبوں کو ہٹایا جا رہا ہے۔

سیاسی مداخلت عروج پر ہے۔ وائس چانسلرز، پرنسپلز اور اساتذہ کی تقرری میں کھلم کھلا سیاست ہو رہی ہے۔ ’’عملی زندگی کی تعلیم‘‘ کے نام پر ناعلم اور متعصب افراد کو اساتذہ بنایا جا رہا ہے۔ تعلیم اداروں میں ایک خاص مذہب کے رسم و رواج، جیسے ہنومان بھنڈارا، مکمل انتظامیہ کی موجودگی میں منائے جا رہے ہیں۔


اقتدار نے ملک کی کثرتِ ثقافت کے تئیں نفرت بھرنے کے لیے ہر طرح کا دباؤ ڈالا۔ حب الوطنی جگانے کے نام پر ان پیٹن جنگی ٹینکوں کو یونیورسٹیوں میں لا کر رکھ دیا گیا جنہیں کبھی جنگوں میں استعمال کیا گیا تھا۔ وائس چانسلرز، پرنسپلوں اور اساتذہ کی تقرری میں کھلے عام سیاسی مداخلت ہونے لگی۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں ’زندگی کی عملی تعلیم‘ کے نام پر اساتذہ کی ایک نئی طرز کی بھرتی شروع کر دی گئی، جس میں اساتذہ کے لیے کسی بھی قسم کی ڈگری کو غیرضروری قرار دے دیا گیا۔ اس بہانے تعلیمی اداروں میں انپڑھ اور متعصب افراد اہم اور بااثر عہدوں تک پہنچنے لگے۔ نوجوان شعور کی کھڑکیاں بند کرنے کی منظم مہم جاری ہو گئی۔

مذہبی تفریق اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز پر مبنی ایجنڈا تعلیمی اداروں میں داخل ہو چکا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جماعت سے ہٹ کر ہونے والی سرگرمیوں میں ناجائز مداخلت عام ہونے لگی ہے۔ کثرتِ رائے، سائنسی اور جمہوری شعور بیدار کرنے والے پروگراموں کو بلا کسی قاعدے قانون کے روکا جانے لگا۔ ایسے درجنوں مقررین کے لیکچر زبردستی اور بہت بار بدتمیزی کے ساتھ، منسوخ کیے گئے جو ملک کے آئینی اقدار کے حامی رہے ہیں اور ’قانون کی حکمرانی‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دینے والے پروگراموں کے منتظم کئی پرنسپل اور اساتذہ مختلف طریقوں سے ہراساں کیے گئے۔ کچھ کو رسوا کیا گیا، کچھ کو سزا دی گئی، کچھ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ بہت سے اساتذہ کئی برسوں سے مقدموں میں الجھے ہوئے ہیں۔

ایسی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی کمی نہیں ہے جہاں اکثریتی مذہب کی خالص مذہبی رسومات، جیسے ’ستیہ نارائن کتھا‘ اور ’ہنومان بھنڈارا‘، کا پوری انتظامیہ کی شرکت کے ساتھ اہتمام کیا جا رہا ہے۔

آج ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ علم کے مراکز خود جہالت کے ہاتھوں شکست کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یونیورسٹیاں عالمی وژن سے محروم ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ ادارے جو کبھی روشنی کے مینار سمجھے جاتے تھے، آج اندھیرے اور دھوئیں میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔

ملک ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا ہے۔ اگر تعلیم کے اداروں میں کثرت اور رواداری کی قدریں زندہ نہ رہ سکیں، تو جمہوریت کا زندہ رہنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔