پنجاب میں بڑھتی سرگرمیوں کے درمیان کیجریوال کی حکمت عملی اور ’سپر سی ایم‘ کا تاثر
کیجریوال پنجاب میں مسلسل سرگرم ہیں اور اہم فیصلوں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انہیں ’ڈی فیکٹو چیف منسٹر‘ یا ’سپر سی ایم‘ کہا جانے لگا ہے

اروند کیجریوال / آئی اے این ایس
کوئی بھی سیاسی جماعت جب کسی ریاست میں اقتدار حاصل کرتی ہے، تو اس کے بعد وہاں سرکاری تقریبات، منصوبوں کے افتتاح، عوامی ریلیوں اور کامیابی کے جشن کا سلسلہ عام بات ہوتا ہے۔ یہی کچھ ان دنوں پنجاب میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر، 7 جولائی کو لدھیانہ ویسٹ کے ضمنی انتخاب میں عام آدمی پارٹی کی جیت کے بعد ایک شکریہ ریلی منعقد ہوئی۔ اسی روز موہالی میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا افتتاح کیا گیا۔ نیشنل اچیومنٹ سروے 2024 میں پنجاب کو تعلیمی میدان میں سرفہرست قرار دیے جانے پر اساتذہ کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اگلے دن حکومت کی صحت انشورنس اسکیم کے تحت عوام کو ہیلتھ کارڈ تقسیم کیے گئے، اور جیسمن شاہ کی کتاب ’کیجریوال ماڈل‘ کے پنجابی ترجمے کی رسم رونمائی بھی عمل میں آئی۔
ایسے تمام پروگراموں میں ریاستی سربراہ کی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے، اس لیے وزیراعلیٰ بھگونت مان بھی شریک ہوئے۔ مگر ان تقریبات میں سب سے نمایاں شخصیت دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال رہے۔ ان دنوں پنجاب کے تقریباً تمام سرکاری و سیاسی پروگراموں میں وہ نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ اکثر مرکزی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کبھی وہ زمین کی رجسٹری کے نئے قوانین کا اعلان کرتے ہیں، تو کبھی صنعتکاروں کے لیے پورٹل کا اجرا کرتے ہیں۔ ان کی ساری سیاسی سرگرمیاں اب پنجاب تک محدود ہو چکی ہیں۔ دہلی میں ان کی کوئی خاص سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملتی، حتیٰ کہ پارٹی کے ایکس اور یوٹیوب اکاؤنٹس پر بھی یہی رجحان نظر آتا ہے۔ کچھ تقریبات میں ان کے ساتھ دہلی کے سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا بھی اسٹیج پر موجود ہوتے ہیں۔
جب 2022 میں پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بنی اور مان نے حلف لیا، تو ایک سال سے زائد عرصے تک ’دہلی ماڈل‘ کی گونج سنائی دیتی رہی۔ بجلی مفت، اسکول بہتر اور محلہ کلینک جیسے وعدے عام ہوئے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ مان حکومت کو دہلی سے ’ریموٹ کنٹرول‘ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔
فروری 2024 میں جب عام آدمی پارٹی دہلی کے اسمبلی انتخابات میں بری طرح ہار گئی تو ’ریموٹ کنٹرول‘ ختم ہو گیا اور کیجریوال بذات خود پنجاب آ گئے۔ وہ ہوشیارپور میں 10 دن کے وپسینا پر آئے اور ان کی خدمت میں ریاستی سرکاری مشینری سرگرم رہی۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل پنجاب میں سرگرم ہیں۔
دہلی کی سیاست اب مکمل طور پر آتشی اور سوربھ بھاردواج کے حوالے ہے۔ کالکاجی میں جھگی بستیوں کے انہدام پر جب آتشی کو گرفتار کیا گیا، تو کیجریوال نے صرف سوشل میڈیا پر مذمت کی، کسی پریس کانفرنس یا احتجاج میں شامل نہیں ہوئے۔ تبصرہ کیا گیا کہ کیجریوال اب دہلی کے مسائل پر محض ردعمل دیتے ہیں، سرگرم کردار ادا نہیں کرتے۔
یہ تبدیلی 8 فروری کو شروع ہوئی جب دہلی میں شکست ہوئی۔ اسی روز پنجاب کے تمام ارکان اسمبلی کو 11 فروری کو دہلی میں کیجریوال کی رہائش پر ایک میٹنگ کے لیے بلایا گیا۔ وزیراعلیٰ مان سمیت تمام 91 ارکان ناسمبلی اس میں شریک ہوئے۔ یہ طاقت کے مرکز کے بدلنے کی پہلی علامت تھی۔
اسی دن دو اہم فیصلے اور ہوئے: منیش سسودیا کو پنجاب کا انچارج بنایا گیا اور ستیندر جین کو معاون انچارج۔ دونوں نے چنڈی گڑھ میں مستقل قیام کر لیا ہے۔ وہ سیکٹر 39-اے کی دو کوٹھیوں میں رہ رہے ہیں، جو کابینی وزراء کے لیے مختص ہیں۔ سسودیا جس کوٹھی میں رہتے ہیں وہ وزیر روجوت سنگھ کے نام الاٹ ہے، مگر اصل میں وہاں سسودیا رہائش پذیر ہیں۔
حال ہی میں پنجاب حکومت نے نیتی آیوگ کے طرز پر ’پنجاب ڈیولپمنٹ کمیشن (پی ڈی سی) کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم کی، جس کے چیئرمین وزیر اعلیٰ مان ہیں جبکہ نائب صدر سیما بنسل ہیں جو ہریانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ کانگریس کے پرتاپ سنگھ باجوہ نے الزام لگایا ہے کہ اس ادارے کے تمام اعلیٰ عہدے دہلی کے قریبی افراد کو دیے گئے ہیں اور تقرریوں میں شفافیت نہیں برتی گئی۔
بی جے پی رہنما سنیل جاکھڑ کے الزامات اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کابینہ کی میٹنگیں اب وزیر اعلیٰ آفس میں نہیں، بلکہ ان کی رہائش گاہ پر ہوتی ہیں، تاکہ کیجریوال اور سسودیا کو بھی شرکت کا موقع ملے۔ اسی بنیاد پر اپوزیشن نے کیجریوال کو ’ڈی فیکٹو سی ایم‘ یا ’سپر سی ایم‘ کہنا شروع کر دیا ہے۔
لدھیانہ ویسٹ کے ضمنی انتخاب کے دوران دہلی کی میڈیا ٹیم کا اثر زیادہ نمایاں تھا۔ اس ٹیم کے سربراہ وجے نائر ہیں جو دہلی شراب گھپلے کے ملزم بھی ہیں۔ میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ دہلی ٹیم نے پنجاب کی مقامی میڈیا ٹیم کے کئی لوگوں کو ہٹا دیا۔ ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگے۔
اس ضمنی انتخاب میں جیت کے فوراً بعد سنجیو اروڑہ نے راجیہ سبھا سے استعفیٰ دے دیا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ کیجریوال اس نشست سے راجیہ سبھا میں جائیں گے تاکہ قومی سیاست میں ایک بار پھر سرگرم ہو سکیں، اگرچہ کیجریوال اور عام آدمی پارٹی دونوں نے اس سے انکار کیا ہے۔
اصل سوال یہ نہیں کہ وہ راجیہ سبھا میں جائیں گے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا کیجریوال اب اپنا سیاسی مستقبل پنجاب میں دیکھ رہے ہیں؟ ان کی موجودہ سرگرمیوں سے یہی اشارہ ملتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی آئندہ کامیابی یا ناکامی اب 2027 کے پنجاب اسمبلی انتخابات سے جڑی ہوئی ہے، جہاں ان کی قیادت میں وہی ٹیم کام کر رہی ہے جو دہلی میں پارٹی کو بدترین شکست سے نہ بچا سکی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔