وقت بے وقت: معمولی نہیں تھا کٹھوعہ کی درندگی کا واقعہ

کٹھوعہ معاملے میں پولس نے جب اپنی چارج شیٹ پیش کی تو وہاں کے ہندوؤں کو متحد کر کے کہا گیا کہ جن افراد پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں وہ ملزم ہو ہی نہیں سکتے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اپوروانند

’’کٹھوعہ میں پیش آئے واقعہ کو غیر ضروری طول دیا گیا ہے‘‘، یہ کہنا ہے جموں وکشمیر کے نائب وزیر اعلی کا۔ ’’آٹھ سالہ بچی چھوٹی ہوتی ہے لہٰذا اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوگا وہ معمولی ہی ہوگا! آخر ایک بچی کے مارے جانے پر اتنا ہنگامہ کیوں ہے! ‘‘ یہ بیان ہمارے ملک میں بچوں کے تئیں عام نظریہ کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ایک بچے یا بچی کے ساتھ بد فعلی ہو اور کسی بالغ کو سزا دینے کی نوبت آ جائے تو یہ بات ہونے لگتی ہے کہ کیا کسی بچے کے لئے ایک بالغ شخص کی زندگی تباہ کر دی جائے! یہ دلچسپ ہے کہ اس ملک میں جہاں بچوں کو اکثر کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ بچوں کو بڑوں کا احترام کرنا ہی ہے۔ انہیں نظم و ضبط میں رہنا ہی ہے۔ کسی بڑے کے کچھ کہنے پر سوال نہیں اٹھانا ہے۔ وہیں اگر کسی بچے کی عصمت دری ہو جاتی ہے تو فوراً موت کی سزا کا مطالبہ ہونے لگتا ہے۔

دہلی کے خواتین کمیشن کی سربراہ سواتی ماليوال نے بچوں کے ساتھ کی جانے والی عصمت دری کے لئے موت کی سزا کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئیں۔ ان سے حقوق اطفال کے لئے کام کرنے والوں نے کہا کہ وہ اپنے مطالبہ پر از سر نو غور کریں، لیکن وہ بضد رہیں۔ چند دنوں میں ہی مرکزی حکومت نے اس ضمن میں آرڈیننس کو منظور کر لیا کہ بچوں کے ساتھ عصمت دری پر سزا ئے موت سنائی جائے گی۔ مالیوال کو اس جیت کے لئے مبارکباد پیش کی گئی۔ مگر یہ بات کسی نے نہیں پوچھی کہ عوام کے مفاد کا کوئی مطالبہ پورا نہ کرنے والی حکومت نے فوراً سے پیشتر اس تجویز کو قبول کیوں کر لیا! شک تو تبھی ہو جانا چاہئے جب ہر قدم پر عوام کے خلاف فیصلہ لینے والی حکومت جب کچھ ایسا کر ڈالتی ہے کہ وہ عوام کے حق میں نظر آتا ہے!۔

سزائے موت کے مطالبہ کے پہلے یہ غور کریں کہ ہم اپنے بچوں کی بات پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔ دوسری بات، تحقیق اور مطالعہ کی بنیاد پر یہ معلوم ہوا ہے کہ بچوں کے ساتھ عصمت دری اکثر خاندان سے وابستہ افراد اور واقف کاروں کی طرف سے ہی کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں بچی پراس بات کا دباؤ ہوگا کہ وہ شکایت کرے ہی نہیں، یا پھر اسے گواہ کے طور پر زندہ ہی نہ چھوڑا جائے۔

پھانسی کی سزا کے لئے بی جے پی بھی پس و پیش میں ہے۔ صرف اس کا کہنا یہ ہے کہ ملزم وہ خود طے کرے گی۔ کٹھوعہ کے معاملے میں پولس نے جب اپنی چارج شیٹ پیش کی تو وہاں کے ہندوؤں کو متحد کر کے کہا گیا کہ جن افراد پر الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ ملزم ہو ہی نہیں سکتے، اس لئے کیونکہ وہ ہندو ہیں۔ ایک ’ہندو ایکتا منچ‘ نامی تنظیم کا قیام کیا گیا اور پولس کی تفتیش کے خلاف تحریک چھیڑ دی گئی۔ الزام لگایا گیا کہ پولس کی تحقیقات ہندو مخالف ہے۔

ایک صحافی نے ٹھیک ہی کہا کہ اگر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جانچ غلط اور بدنیتی پر مبنی ہے اور وہ غلط لوگوں پر فرد جرم عائد کر رہی ہے تو اس کے خلاف ’کٹھوعہ ایکتا منچ ‘ بنایا جا سکتا تھا۔ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے۔ ایسا نہ کر کے سیدھے ہندو ایکتا منچ تشکیل دینے سے ہی ان کی منشاء ظاہر ہو جاتی ہے۔ مقصد انصاف حاصل کرنے کا قطعی نہیں تھا بلکہ اس معاملہ کو بہانا بناکر مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے کا تھا۔ ورنہ اس مطالبہ کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ اور خانہ بدوش گوجر بکروالوں کی طرف سے زمین کے استعمال کی بات کو، ساتھ میں کیوں منسلک کر دیا؟

جس کی بچی کے ساتھ ایسی وحشیانہ واردات کی گئی ہو، اس کا مشتعل ہونا فطری ہے۔ لیکن اس معاملہ میں ان کی جگہ ملزم فریق اشتعال انگیز اور جارحانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے کہا کہ وہ بچی کے لئے انصاف چاہتے ہیں لیکن وہ پولس کی تحقیقاتی رپورٹ پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہندو یہ کام کر ہی نہیں سکتے۔ بکروال آپس میں رشتے کرتے ہیں لہذا انہیں میں سے کسی نے اس واردات کو انجام دیا ہوگا۔ یا پھر روہنگیا مسلمانوں نے اس واردات کو انجام دیا ہوگا!

تو کیا یہ کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کوئی ہندو عصمت دری کر ہی نہیں سکتا! ملک بھر میں عصمت دری کے بہت سے واقعات پیش آتے ہیں، کیا ان میں ہندو شامل نہیں ہو سکتے؟

جموں وکشمیر کے نائب وزیر اعلی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس ملک میں ہونے والے متعدد عصمت دری اور قتل کے واقعات میں سے یہ بھی (ان کی خواہش کے مطابق) ایک معمولی واقعہ ہوتا اگر پولس کی تحقیقات کے خلاف تحریک نہ چھیڑی گئی ہوتی۔ اس معاملہ کو طول آخر کس نے دیا؟ کیا پولس کی تحقیقات کے دوران مسلمانوں نے ملزمان کو مار ڈالنے، انہیں فوری سزا دینے جیسے کسی مطالبہ کو لے کر کوئی تحریک چلائی؟ کیا ملک کے کسی اور حصہ میں مسلمانوں نے یہ کیا؟

دریں اثنا، کسی مدرسہ میں عصمت دری کی خبر منظر عام پر آئی ہو۔اور اس معاملے میں مسلمانوں نے کوئی مظاہرہ کیا ہو اور یہ کہا ہو کہ مدرسہ کا نام کیوں لیا جا رہا ہے؟ کیا اس طرح کا مظاہرہ کیا گیا کہ مسلمان کو کیوں ملزم بنایا گیا ہے؟ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے کٹھوعہ اور اناؤ کے معاملات میں احتجاج کیا، وہ غازی آباد مدرسہ میں کی گئی عصمت دری کو لے کر کیوں سڑکوں پر نہیں اترے! یہ پوچھنے سے پہلے انہیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا غازی آباد میں ملزم کے حق میں طاقت ور لوگوں یا رہنماؤں کی جانب سے کوئی دباؤ ڈالا گیا جیسا کٹھوعہ میں اثردار وکلاء اور دوسرے لوگ ڈال رہے تھے؟ کیا غازی آباد میں ایک مسلم ایکتا منچ بنا کر ملزم فریق کی طرف سے کوئی تحریک چلائی گئی؟ اگر ایسا نہیں ہے، اور ایک جرم کے بعد ضروری انتظامی اور قانونی کارروائی چل رہی ہے تو احتجاجی مظاہروں کی کیا ضرورت؟

غازی آباد کے مسلمانوں کی طرح اگر کٹھوعہ کے ہندوؤں کے رہنماؤں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہوتا تو شاید ہم کٹھوعہ کا نام بھی غازی آباد کی طرح ہی لیتے لیکن وہاں ایسا نہیں ہوا۔ کٹھوعہ کی درندگی ایک معمولی واقعہ نہ رہ سکا۔ اسے عصمت دری اور قتل نہیں رہنے دیا گیا۔ بچی کے قتل کو بھی اس کے طبقہ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ پھر اسے ایک بڑا واقعہ کس نے بنایا، کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 May 2018, 10:01 AM