کرناٹک کا لرزہ خیز انکشاف: لاپتہ زندگیاں، دفن شدہ لاشیں اور میڈیا پر پابندیاں
دھرم استھلا کے ایک سابق ملازم نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 1995-2014 کے درمیان سیکڑوں لاشیں دفنائیں۔ تحقیقات جاری ہیں، جبکہ میڈیا پر پابندی نے تنازعہ کو مزید گہرا کر دیا ہے

علامتی تصویر
کرناٹک کے ضلع جنوبی کنڑا میں واقع مشہور ہندو مذہبی مقام دھرم استھلا، جو اب تک اپنے مقدس منجوناتھ مندر کے لیے جانا جاتا تھا، اب ایک ایسے انکشاف کی زد میں ہے جس نے پورے جنوبی ہند کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہاں 4 جولائی 2025 کو ایک 48 سالہ صفائی ملازم نے، جو اپنے وکلاء کے ساتھ دھرم استھلا کے نئے پولیس تھانے پہنچا، ایک ایسی شکایت درج کرائی جس نے افسران کو سکتہ میں ڈال دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ 1995 سے 2014 کے درمیان اس نے دباؤ میں آ کر سیکڑوں لاشیں دفنائیں، جن میں سے کئی پر تشدد، جنسی زیادتی، گلا گھونٹنے اور جلائے جانے کے نشانات تھے۔ اس نے تصویری ثبوت بھی فراہم کیے اور قریبی جنگلات میں کھدائی کی اجازت مانگی۔
ملزم نے بتایا کہ 2014 میں اپنے خاندان پر حملے کے بعد وہ یہ علاقہ چھوڑ کر روپوش ہو گیا تھا، مگر اب ضمیر کی خلش اسے مزید خاموش رہنے نہیں دے رہی۔ ’گواہ تحفظ اسکیم‘ کے تحت اسے تحفظ فراہم کیا گیا اور 11 جولائی کو عدالت میں پیش ہو کر اس نے بعض باقیات بھی عدالت میں پیش کیں۔
یہ خبر پھیلتے ہی جنوبی ریاستوں میں تہلکہ مچ گیا، کیونکہ دھرم استھلا میں ہر سال لاکھوں عقیدت مند آتے ہیں۔ اس بیان کے بعد کئی لوگوں نے پرانے مقدمات کی ازسر نو تحقیقات کا مطالبہ کیا، جن کے اہل خانہ یا رشتہ دار یہاں سے لاپتہ ہوئے یا ان کے قتل کی سازش کا شبہ تھا۔
دھرم استھلا، مغربی گھاٹ کے حسین مناظر اور نیتر وتی ندی کے کنارے واقع ہے۔ منجوناتھ مندر کو علاقے کے سب سے دولت مند اور بااثر مندروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ شیو مندر ہے لیکن اس کا انتظام ایک مشہور جین بنٹ خاندان کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کے پجاری مادھوا فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے دیوتا وشنو مانے جاتے ہیں۔ اس وقت اس مندر کے منتظم ویریندر ہیگڑے ہیں، جنہیں پدم بھوشن سے نوازا جا چکا ہے اور نریندر مودی حکومت نے راجیہ سبھا کے لیے نامزد بھی کیا ہے۔
اس ہولناک انکشاف کے بعد کرناٹک حکومت نے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل پرنب موہانتی کی قیادت میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) قائم کر دی ہے۔ ریاستی وزیر داخلہ جی پرمیشور نے امید ظاہر کی ہے کہ ایس آئی ٹی جلد سچ سامنے لائے گی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اپوزیشن بی جے پی اس معاملے کی تفتیش ہی نہیں ہونے دینا چاہتی۔
دریں اثنا، شکایت کنندہ کے وکلاء نے پولیس پر مزید لاشیں نکالنے کی اجازت میں تاخیر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے مطابق چونکہ یہ واقعہ پرانا ہے اور مدعی کو قبریں دفن کیے تقریباً 30 سال ہو چکے ہیں، اس لیے درست مقام کی نشاندہی مشکل ہے لیکن کھدائی کی اجازت ضرور دی جانی چاہیے۔
دھرم استھلا کے ترجمان کے پارشوناتھ جین نے اعتراف کیا ہے کہ کچھ قبریں مندر کے احاطے میں دفن ہونے کے دعوے سامنے آئے ہیں جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شفاف تفتیش ہی اعتماد بحال کر سکتی ہے۔ تاہم، مندر کے موجودہ مہنت کے بھائی نے 8842 آن لائن لنکس کو بلاک کرانے کا عدالتی حکم حاصل کر کے اس معاملے کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ بنگلورو کی عدالت نے ان کی اپیل پر پرنٹ، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو مندر یا اس کے منتظمین کے خلاف توہین آمیز مواد شائع کرنے سے روک دیا۔ اس میں ’ڈیکن ہیرالڈ‘ اور ’دی ہندو‘ جیسے بڑے ادارے، یوٹیوب چینل، ویب سائٹس، فیس بک اور ریڈٹ کی پوسٹس بھی شامل ہیں۔
اس قسم کے احکامات کو ’جان ڈو آرڈر‘ کہا جاتا ہے، جس کے تحت انجان اداروں اور پلیٹ فارمز کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایک یوٹیوب چینل ’تھرڈ آئی‘ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی کہ انہیں یا دیگر متاثرہ فریقین کو سنے بغیر صرف تین گھنٹوں میں یہ یکطرفہ پابندی لگا دی گئی، جس سے تقریباً 390 میڈیا ادارے اور 9000 سے زائد لنکس متاثر ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اسے پہلے ہائی کورٹ میں لے جانے کا مشورہ دیا۔
یقیناً، خواتین، مردوں اور بچوں کے اغوا، تشدد اور جنسی زیادتی جیسے الزامات، اور ان کی پوشیدہ تدفین کی کہانی نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک ایسا سنسنی خیز مجرمانہ راز بن گیا ہے، جس کی پرتیں کھلنا ابھی باقی ہیں۔ وقت ہی بتائے گا کہ ایس آئی ٹی حقیقت تک پہنچ پاتی ہے یا یہ معاملہ بھی اثر و رسوخ کے بوجھ تلے دب کر رہ جائے گا۔