جگدیپ چھوکر: ایسی شخصیت جنہوں نے ملک کو دیا جمہوریت کی حفاظت کا سبق... ہرجندر
جگدیپ سنگھ چھوکر نے انتخابی اصلاحات اور جمہوریت کی بقا کے لیے ڈھائی دہائیوں تک جدوجہد کی۔ اے ڈی آر کے بانی کے طور پر انہوں نے الیکٹورل بانڈ اور امیدواروں کی تفصیلات جیسے اہم مسائل کو اجاگر کیا۔

ہندوستانی جمہوریت پر جو خطرات منڈلا رہے ہیں وہ کسی سے چھپے نہیں ہیں۔ کہیں ووٹروں کے نام بڑی تعداد میں فہرست میں شامل کر دیے جاتے ہیں تو کہیں ان کے نام ایک ساتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ کبھی یہ خطرہ الیکٹورل بانڈ کی شکل میں سامنے آتا ہے تو کبھی 60 لاکھ این آر آئی ووٹروں کو الیکٹرانک ووٹنگ کا حق دینے کی بات اٹھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات کے نگران ادارے یعنی الیکشن کمیشن کی شفافیت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن ان تمام خطرات کے بیچ یہ اطمینان ضرور رہا کہ جب تک ہمارے درمیان جگدیپ سنگھ چھوکر جیسے لوگ موجود ہیں، جمہوریت کو ختم کرنے کی سازشیں آسانی سے کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
چھوکر طویل عرصے تک ہندوستانی عوام کے جمہوری حقوق کی حفاظت کی علامت بنے رہے۔ انہوں نے ان مسائل کو نہ صرف عدالتوں میں اٹھایا بلکہ عوامی بیداری کی مہم چلائی، مضامین لکھے اور ہر اس بحث کا حصہ بنے جس کا تعلق جمہوریت سے تھا۔ ان کی مسلسل جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک الیکٹورل بانڈ جیسے سنگین مسئلہ سے نجات پا سکا۔ حال ہی میں بہار میں انتخابی فہرستوں کی گہری نظرثانی کے نام پر جو خصوصی مہم شروع ہوئی، جگدیپ چھوکر ان پہلے لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اسے عدالت میں چیلنج کیا۔ ان کی کوششوں سے الیکشن کمیشن پر کچھ حد تک روک بھی لگی۔
جگدیپ چھوکر کی ابتدائی زندگی میں ہمیں اس طرح کا سیاسی رجحان نظر نہیں آتا۔ 25 نومبر 1944 کو پیدا ہونے والے چھوکر نے 1967 میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن انجینئر بننے کے بجائے انہوں نے مینجمنٹ کی تعلیم شروع کی۔ نہ صرف ایم بی اے کیا بلکہ پی ایچ ڈی بھی حاصل کی۔ طویل عرصے تک وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ میں پروفیسر رہے اور ان کے کھاتے میں مینجمنٹ پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات درج ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں وہ مینجمنٹ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے گئے اور ان کی یہ فہرست کسی بھی ’فریکوئنٹ فلائر‘ کے لیے حسد کا باعث ہو سکتی ہے۔
انہی دنوں ان کی ملاقات تریلوچن شاستری سے ہوئی۔ دونوں ہی جمہوریت کے گرتے معیار سے فکر مند تھے اور اسے بہتر بنانا چاہتے تھے۔ مسلسل تبادلۂ خیال کے بعد دونوں نے مل کر 1999 میں ’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز یعنی اے ڈی آر کی بنیاد رکھی۔ انہیں آگے کا راستہ صاف نظر آ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی آئی ایم میں تدریس کے دوران ہی چھوکر نے قانون کی تعلیم شروع کی اور ریٹائرمنٹ سے پہلے 2005 میں ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ قانون کا یہ علم بعد میں نہ صرف ان کے بلکہ ملک کے بھی بے حد کام آیا۔
گزشتہ ڈھائی دہائیوں میں انہوں نے جمہوریت کو بچانے اور مضبوط بنانے کی جدوجہد مسلسل جاری رکھی۔ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ یہ قاعدہ بنا کہ انتخابی امیدوار اپنی جائیداد اور مجرمانہ ریکارڈ کی تفصیل عوام کے سامنے پیش کرے اور الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اس کی اشاعت لازم ہو۔ سیاست دانوں، صحافیوں اور ماہرین کی بڑی تعداد ان سے رجوع کرتی تھی تاکہ وہ کسی فیصلے کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
جگدیپ چھوکر اپنی بات ہمیشہ بے خوف انداز اور صاف گوئی سے رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ’ون نیشن ون الیکشن‘ کی تجویز سامنے آئی تو انہوں نے بار بار کہا کہ یہ جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے صاف کہا تھا کہ اگر اسے نافذ کرنے کی کوشش ہوئی تو وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ تک لڑائی لڑیں گے۔
ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں اس کی کوشش بھی شروع ہو۔ لیکن اب ملک کو یہ لڑائی جگدیپ سنگھ چھوکر کے بغیر ہی لڑنی ہوگی۔ 12 ستمبر کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن جاتے جاتے وہ یہ سبق دے گئے کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے کیسا عزم اور کیسی جدوجہد ضروری ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔